بحران کا اختتام

پاکستان کی سیاسی و عدالتی تاریخ کے اہم ترین فیصلے میں عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بنچ نے متفقہ طور پر فیصلہ دیا ہے کہ آئین سے انحراف کی صورت میں استثنیٰ کے باوجود فیصلے کو کالعدم قرار دیاجا سکتا ہے ۔اس فیصلے کے بعد ملک میں جاری سیاسی بحران کا خاتمہ ہو گیا ہے اور آئین و قانون کے مطابق اب معاملات کو آگے بڑھایا جائے گا۔سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لاجر بنچ نے سپیکر کی رولنگ پر ازخودنوٹس کیس میں ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کوسپریم کورٹ کا آٹھ صفحات پر مشتمل فیصلہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دینے سے شروع ہوتا ہے۔عدالت نے قرار دیا ہے عدم اعتماد کی تحریک پر سپیکر کی رولنگ میں بتائی گئی وجوہات آئین اور قانون سے متضاد ہیں جن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، اور اس لیے ان کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔نیز اس عمل کے تسلسل میں یہ قرار دیا جاتا ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک تاحال موجود ہے اور اس پر کارروائی ہونا ہے۔عدالت نے فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 58 کی پہلی شق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس سارے عمل کے دوران وزیراعظم پر پابندی عائد تھی اور وہ اس دوران صدر کو اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس دینے کے مجاز نہ تھے۔اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے وزیراعظم کی ایڈوائس کی کوئی قانونی حیثیت نہیںواقعات کے اسی تسلسل میں وزیراعظم کی جانب سے تین اپریل کو قومی اسمبلی توڑنے کے لیے صدر کو بھیجی گئی ایڈوائس کی کوئی آئینی و قانونی حیثیت نہیں۔عدالت کے مطابق صدر کی جانب سے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا حکم نامہ آئین سے متضاد اور اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، اور اس کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ یہ قرار دیا جاتا ہے کہ اس تمام عرصے میں قومی اسمبلی موجود تھی اور موجود رہے گی۔ سپیکر کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ قومی اسمبلی کا جاری اجلاس طلب کریں، اور ایسا فوری طور پر کریں فیصلے کے مطابق سپیکر آئین کے آرٹیکل 54کی شق تین کے تحت اسمبلی کے اجلاس کو اس وقت تک ملتوی نہیں کر سکتے جب تک عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ نہیں ہو جاتی۔ اجلاس اسی وقت ملتوی کیا جا سکتا ہے کہ اگر عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہو جائے’یا عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو جائے اور آئین کے آرٹیکل91کے تحت نئے وزیراعظم کا انتخاب ہو جائے اور وہ رولز32کے تحت اپنا عہدہ سنبھال لیں۔پیرا گراف11میں لکھا ہے کہ اگر عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوتی ہے تو قومی اسمبلی کے اسی جاری اجلاس میں نئے وزیراعظم کے انتخاب کے بعد سپیکر اور وفاقی حکومت سمیت تمام متعلقہ حکام اس عدالت کے احکامات اور ہدایات پر فوری عمل کرائیں۔عدالت نے کہا ہے کہ اٹارنی جنرل نے وفاقی حکومت کی جانب سے جو یقین دہائی کرائی گئی تھی وہ اب عدالتی حکم ہے جس کے تحت حکومت کسی بھی انداز میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں کسی بھی طور روڑے نہیں اٹکا سکتی۔ اجلاس میں کسی بھی رکن کو شرکت سے روکا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی رکن کو عدم اعتماد کی تحریک اور نئے وزیراعظم کے انتخاب کے وقت ووٹ ڈالنے سے روک سکتی ہے۔تاہم عدالت نے قرار دیا کہ یہ مختصر حکم نامہ کسی بھی طور آئین کے آرٹیکل 63اے پر اثرانداز نہیں ہوگا جس کے تحت اگر کوئی رکن پارٹی سے منحرف ہوتا ہے تو اس کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔جیسا کہ فیصلے سے واضح ہے کہ اب معاملات کا سلسلہ وہیں سے شروع ہوگا جہاں سے ٹوٹا تھا اور اس درمیان جتنے بھی اقدامات اور احکامات جاری کئے گئے تھے وہ ختم تصور ہونگے البتہ عدالت کی جانب سے ان کو ابھی تک خلاف ورزی تو ضرور قرار دیا گیا ہے یہ معاملات آئین شکنی اور آرٹیکل 6کے تحت آتے ہیں یا نہیں یا پھر اس حوالے سے آئندہ حکومت کیا اقدامات کا فیصلہ کرتی ہے اس حوالے سے معاملات کا سامنے آنا باقی ہے جہاں تک تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اور ممکنہ طور پر نئے وزیر اعظم کے بیان کا تعلق ہے انہوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ ان کی لغت میں انتقام کا لفظ نہیںتاہم انہوں نے اس امر کا ضرور عندیہ دیا ہے کہ قانون اپنا راستہ لے گاممکنہ وزیر اعظم کے علاوہ اہم سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کے قائدین کی جانب سے متانت اور سنجیدگی اختیار کرنے کی کارکنوں کو ہدایت کی گئی ہے ۔جو اچھی روایت ہے دوسری جانب سے بھی اسی طرح کا رویہ اختیار کیاجائے تو بہتر ہوگا۔عدالت کی جانب سے قومی اسمبلی کے اجلاس طلب کرنے سے لے کر تحریک عدم اعتماد نمٹانے اور نئے وزیر اعظم کے ممکنہ انتخاب یا پھر تحریک عدم اعتماد کی ناکامی تک اسمبلی کے اجلاس کو جاری رکھنے کا حکم جاری کرکے کسی بھی قسم کے رکاوٹ کے امکانات کا تدارک کر لیاگیا ہے جس کے بعد توقع کی جا سکتی ہے کہ اب کسی قسم کے سرپرائز کا کوئی موقع اور امکان باقی نہیں رہاہم سمجھتے ہیں کہ عدم اعتماد کی پیش کردہ تحریک کو آئین و قانون کے مطابق نمٹایا جاتا تو سیاسی کشیدگی میں اضافہ نہ ہوتا اور نہ ہی چند دنوں کے لئے ملک و قوم بحران سے دو چار ہوتے نیزحکومت کی کامیابی یا پھر رخصتی بھی دستور کے مطابق ہونے سے کسی سیاسی جماعت کی ساکھ کو نقصان پہنچتا بہرحال پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا ہے جس کی اب واپسی تو ممکن نہیں سوائے اس کے کہ نفرت کی سیاست سے اجتناب کیا جائے آئین و دستور و قانون کو مقدم رکھا جائے اور جمہوری تقاضوں کے مطابق سیاست کی جائے اسی میں ہر سیاسی فریق کا فائدہ ہے وطن عزیزکے عدالتی فیصلوں میں نظریہ ضرورت ایک عنصر ہوا کرتا تھا جو عدالت عظمیٰ کے تازہ فیصلے نے مکمل اتفاق کے ساتھ دفن ہو گئی ہے جمہوری اقدار اور آئین کی بالادستی میں سیاسی جماعتوں کے کردار کی اہمیت سے انکارممکن نہیں البتہ اب ہارس ٹریڈنگ کے بدترین نظریہ ضرورت کا بھی اب مکمل طور پر خاتمہ ہونا چاہئے اور اصولوں کی سیاست اپنائی جائے جہاں تک پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف ممکنہ طور پر تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا سوال ہے پی ٹی آئی کی قیادت کو اپنے کردار وعمل اور فیصلوں پر ایک نظر ضرور ڈالنے کی ضرورت ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین آصف علی زرداری نے ایوان میں کھڑے ہو کر بڑے دھیمے انداز میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے بارے میں جو تاریخی الفاظ کہے تھے کہ گرنا آپ نے خود ہے ہم تمہیں نہیں گرائیں گے کیوں حرف بحرف سچ ثابت ہوا اور اس کے عوامل کیا تھے اس پر غور کرکے پاکستان تحریک انصاف کو اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنا چاہے تو یہ خود ان کے حق میں بہتر ہوگاممکنہ طور پر دم تحریر پاکستان تحریک انصاف اسمبلیوں سے مستعفی ہونے پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے اس سے قطع نظر اگر تحریک انصاف کی قیادت مشکل وقت میں ممکنہ طور پر حکومت سنبھالنے والی نئی حکومت کو حزب اختلاف کا کردار نبھاتے ہوئے ٹف ٹائم دے گی اور نئے انتخابات تک اپنی صف بندی پرتوجہ مبذول کرے تو آئندہ انتخابات میں اعتماد سے جا پائے گی جبکہ ممکنہ طور پر اقتدار میں آنے والی اتحادی جماعتوںکی حکومت کی جانب سے الزام تراشی اور مخالفین کو کچل دینے کے عمل سے اجتناب کرتے ہوئے صحیح معنوں میں مفاہمتی کردار کی ادائیگی ہوگی اور ملک کو مشکلات سے نکالنے کے لئے جس قومی حکومت کا عندیہ ممکنہ قائد ایوان دے چکے ہیں اس طرز کی کابینہ کی تشکیل کرتے ہوئے حکومت چلائیں گے تو یہ ان کی بڑی کامیابی ہو گی اور ملک کو مشکلات سے نکالنے میں مدد گارثابت ہو گی ہر دوجانب مفاہمت ‘ تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کیا جائے تو یہ خود ان کے اپنے اور ملک و قوم کے مفاد میں بہتر کردار کا مظاہرہ ہوگا جس کی اس وقت ملک و قوم کو ضرورت ہے ۔

مزید پڑھیں:  تجاوزات کی سرپرستی