جس نے بھی کی ہے اپنی ضرورت کی بات کی

پشتوزبان میں ایک ضرب ا لمثل ہے کہ غریب ملا کی اذان پر کوئی کلمہ بھی ادا نہیں کرتا ‘ یہی صورتحال ہماری ہے ‘ ویسے تو ہم بھی جانتے ہیں کہ ہم کیا ہماری اوقات کیا یعنی من آنم کہ من دانم ‘ مگرایک اور ضرب المثل کے مطابق یعنی تہ م مہ شمیرہ زہ در گڈیم(تم مجھے بے شک اہمیت نہ دو’ میں دخل در معقولات سے باز نہیں آنے کا) اگرچہ ایسے لوگوں کے بارے میں جو ایک اور ضرب المثل کے مطابق تو کون کہ میں خواہ مخواہ کے مرتکب ہوتے ہیں ‘ ایک لطیفہ بھی مشہور ہے اور دو بندوں کی تکرار کے دوران وہیں کھڑا تماشا دیکھ رہا تھا ‘ ایک تکرار کرنے والے نے دوسرے کو مخاطب کرتے ہوئے کہ اگر تم باز نہیں آئے تو میں تمہارے 34 دانت توڑ دوں گا ‘ تماش بین نے حیرت سے دھمکی لگانے والے سے پوچھا ‘ بھائی دانت تو 32 ہوتے ہیں ‘ آپ اس کے 34 دانت کیسے توڑیں گے ‘ اسے جواب ملا مجھے معلوم تھا تم بیچ میں ضرور بولو گے اس لئے اس کے 32 دانتوں کے ساتھ دو دانت تمہارے بھی میں نے شامل کر لئے ۔چلیں ان چند جملہ ہائے معترضہ کے بعد اصل مسئلے پر اس توقع کے ساتھ ایک بار پھربات کر لیتے ہیں جس کو دخل درمعقولات قرار تو دیا جاسکتا ہے لیکن امید ہے کہ متعلقہ فریق ہمیں نہ تڑی دیں گے نہ ہی اس کے نتائج کی کوئی عملی صورتگری ہم پہ آزمائیں گے ‘اور مسئلہ یہ ہے کہ بلکہ اس حوالے سے ایک خوش آئند خبر ہے کہ صوبائی دارالحکومت پشاور کی تمام تاجر تنظیموں ‘ مزدور یونینوں ‘ سرکاری ملازمین کی تنظیموں ‘ سیاسی اور سماجی تنظیموں نے ایکا کرتے ہوئے آئندہ کے لئے خیبر روڈ اور دیگر اہم مقامات کی سڑکوں پر احتجاج نہ کرنے اور ٹریفک مسائل پیدا نہ کرنے کا اعلان کیا ہے ‘اس پر تو اظہار اطمینان کرتے ہوئے بہ آواز بلند کہا جا سکتا ہے کہ تری آواز مکے اور مدینے ‘ کیونکہ یہی وہ مسئلہ ہے جس پر ہم ایک دوبار نہیں اور اگر سینکڑوں بار بھی نہیں تو درجنوں بار تمام متعلقہ اداروں ‘ سرکاری اداروں اور عوام سے گزارش کر چکے ہیں مگر بات وہی ابتداء والی کہ غریب ملا کی بانگ پر کون کلمہ پڑھے ‘ حالانکہ ہمارے جو کالم ریکارڈ پر ہیں ان کو دیکھا جائے تو اس عوامی مسئلے پر ہم نے نہ صرف عوام ہی کو درپیش مسئلے کو بار بار چھیڑا اور دہائی دی ‘ کچھ مثالیں بھی دیں ‘ بلکہ اس ضمن میں پشاور ہائی کورٹ کے بھی ایک نہیں بلکہ ایک سے زائد بار صادر کئے ہوئے فیصلوں کا ذکر کیا ‘ جن میں کبھی تو سووموٹو نوٹس کی کارستانی بھی شامل تھی اور کبھی کسی متاثرہ شخص یا اشخاص کی جانب سے عدالت عالیہ پشاور سے رجوع کرکے اس مسئلے کا مستقل حل کی تلاش کی استدعا کا ہاتھ تھا ‘ ہمیں یاد ہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے بہت عرصہ پہلے (غالباً ایم ایم اے کے دور میں)ایک سووموٹو نوٹس پر انتظامیہ کوحکم دیا تھا کہ وہ سورے پل پر احتجاجی ریلیوں ‘ مظاہروںوغیرہ کو روکنے کی تدبیر کرے’ لیکن ہوا کیا؟ کچھ ایسی ہی صورتحال پشاور کے سورے پل کی ہے جہاں پشاور کی تمام ٹریفک ایک نقطے پر اتصال سے دوچار ہوتی ہے ‘ اور اگر اس نقطے کو روک لگا دی جائے تو پورا پشاور جام ہو جاتا ہے ‘ اس گھمبیر مسئلے کی نزاکت کو ہر کوئی جانتا ہے ‘ تسلیم کرتا ہے مگر اس کے حل کی تلاش میں باقی لوگوں کو تنقید کا نشانہ بھی بنا لیتا ہے تاہم جب بات خود پہ آتی ہے تو اپنی ”ضرورت” کو مقدم جانتے بلکہ مانتے ہوئے خود کو بری ا لذمہ بھی ٹھہراتا ہے ‘ اور بقول یار طرحدار امجد بہزاد
جس نے بھی کی ہے اپنی ضرورت کی بات کی
ہم نے ترے حضور محبت کی بات کی
آخر کو خود کلام ہی ہونا پڑا ہمیں
دنیا نے جب بھی کی ہے سیاست کی بات کی
اس سلسلے میں گزشتہ روز کمشنر پشاور ڈویژن ریاض خان محسود کی صدارت میں منعقد ہونے والے شہر کی مختلف سماجی ‘ سیاسی ‘اور دیگر تنظیموں کے ذمہ داران کے ایک اجلاس میں متفقہ طورپر فیصلہ کیا گیا کہ عوام کی مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے سورے پل اور دیگر اہم مقامات پر احتجاج نہیں کیا جائے گا اور اس حوالے سے متبادل مقام کا تعین کرنے کے لئے تجاویز بھی مانگی گئیں ‘ خبر میں اور بھی بہت سی باتیں ہیں تاہم اتنی ہی بات پر اکتفا کرنے کی ضرورت اس لئے ہے کہ اصل اور بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ بات بات پر جولوگ احتجاج کرتے ہوئے جب شہر کے مرکزی مقامات کو بلاک کر دیتے ہیں تو اس سے عوام خجل خوار ہو جاتے ہیں ‘ اور ان کے درد کا مداوا کرنے کے لئے کوئی آگے نہیں آتا ‘ یعنی بقول شاعر
درد ہو دل میں تو دوا کیجے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے
یہ جو متبادل جگہ کی تجاویز جو مانگی گئی ہیں ‘ اس حوالے سے ہم نے اپنے کالم میں متعدد بارلندن کے ہائیڈ پارک کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کی تاریخی اہمیت بیان کی تھی’چونکہ لندن کے ہائیڈ پارک میں نہ صرف لوگ سیر سپاٹے کے لئے آتے ہیں ‘بلکہ جس کا بھی دل چاہے وہاں موجود کسی بیچ یا چبوترے پرکھڑے ہو کر جودل میں آئے کہہ دے ‘ یعنی دل کا غبار بھی نکل جاتا ہے اور کسی کو تکلیف بھی نہیں ہوتی ‘ اس کلئے پر روشنی ڈالتے ہوئے ہم نے بہت عرصہ پہلے جلسوں کے لئے جناح پارک یا پھر شاہی باغ میں کوئی گرائونڈ مختص کرنے کی تجویز دی تھی ‘ تاہم چونکہ اب جناح پارک کے مقام سے بی آر ٹی بسیں گزرتی ہیں اور شای باغ کے ارد گرد بھی تعمیرات کی وجہ سے یہ ممکن نہیں رہا ‘ البتہ جس طرح اب رنگ روڈ پربعض سیاسی اور مذہبی اجتماعات کے لئے اجازت دی جاتی ہے وہیں کوئی مناسب مقام مقرر کرکے ”عوامی احتجاج” کو ممکن بنایا جا سکتا ہے ‘ البتہ شرط یہ ہے کہ وہاں پر اپنے مطالبات پیش کرنے والوں کے ساتھ سرکاری اداروں کا رویہ بھی ہمدردانہ ہونا چاہئے ‘ یعنی جس طرح احتجاج کرنے والوں کے مطالبات یا تو عدم توجہی کا شکار کئے جاتے ہیں اور ان سے متعلقہ حکام رابطے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے جس سے احتجاج میں شدت کا عنصر پیدا ہوتا ہے ‘ یا پھر ان پرلاٹھی چارج کرکے اشتعال پیدا کیا جاتا ہے یہ رویہ بھی ترک کرنا ہوگا ۔ تاکہ مسائل مزید نہ بڑھیں ‘ کہ بقول نقاش کاظمی
اپنی دیوار گرائی بھی تو رستہ نہ کھلا
کوئی دیوار کھڑی تھی مری دیوار کے پاس

مزید پڑھیں:  بات تو کرنی ہو گی!!