نئے پاکستان سے پرانے پاکستان تک

وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد تحریک انصاف کی حکومت کا عملًا خاتمہ ہوگیا ہے اوریوں ملک میں پچھلے کئی ہفتوں سے جاری ہیجانی اور اضطرابی کیفیت بھی ختم ہوگئی ہے۔ پیر کے دن پارلیمنٹ میں نئے قائد ایوان کی تقرری سے جمہوریت کا نیا سفر شروع ہوجائے گا۔ پی ڈی ایم میں شامل اپوزیشن جماعتوں نے ایک کٹھن مرحلے کے بعد اپنے سیاسی حریف کو جمہوری انداز میں شکست دے کر حکومت کا تاج اپنے سر تو سجالیا لیکن نئی حکومت کے لئے جمہوریت کا یہ نیا سفر آسان نہیں ہوگا۔ وطن عزیز اس وقت جس معاشی بحران کا شکار ہے وہ نئی حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔ ڈالر کی اونچی اڑان کو روکنا، مہنگائی کے طوفان کا رخ موڑنا، غربت اور بے روزگاری کے مارے عوام کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرنا اور بیرونی قرضوں کے بڑھتے بوجھ کے پیش نظر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی لانا حکومت کے لئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔ اسی تناظر میں حکومت کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ آئی ایم ایف سے کئے گئے معاہدے کو کیسے آگے لے کرچلا جائے؟ سڑکوں پر حکومت وقت کے خلاف مہنگا ئی کے خاتمے اور عوام کو روٹی کپڑا اور مکان مہیا کرنے کے نعرے بظاہر بڑے مسحور کن لگتے ہیں لیکن حقیقتیں بڑی کڑوی ہوتی ہیں۔ اس وقت اس ملک کا ہر بچہ تقریبا ایک لاکھ اسی ہزار روپے کا مقروض ہے، کیا نئی حکومت کے پاس اللہ دین کا کوئی ایسا چراغ ہے کہ جس سے اس ملک کی ساری مشکلیں ایک دم ختم ہوجائیں۔ سیاسی محاذ پر نئی مخلوط حکومت کے لئے سب سے بڑا چیلنج اندر سے خود اپنے اتحادیوں کی طرف سے ہوگا۔ ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد نئے وزیراعظم کے لئے سب سے کٹھن مرحلہ اتحادیوں کے درمیان اہم وزارتوں کی تقسیم کا ہوگا۔وفاقی وزارتوں کے ساتھ گورنروں کی تقرری اور خصوصا صدر مملکت کے خلاف متوقع مواخذے کی شکل میں نئے صدر کی تقرری پر سیاسی حلیفوں کے درمیان پھڈا پڑے گا۔ پی ڈی ایم چودہ سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک غیر فطری سیاسی اتحاد ہے جسے ہم نے ماضی قریب میں کئی بار ٹوٹتے اور بنتے دیکھا ہے۔ کیا شہباز شریف کی حکومت اتحاد میں شامل تمام سیاسی جماعتوں کو وفاقی کابینہ میں متوازن نمائندگی دے کر حکومتی اتحاد کو ایک ہی بیانئے کے ساتھ آگے لے جانے کی صلاحیت رکھتی ہے؟ عدم اعتماد کی تحریک پر پارلیمنٹ میں بحث کے دوران اتحادی جماعتوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیر مین بلاول بھٹو نے عوامی نمائندوں کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی پرانے پاکستان میں خوش آمدید کہا، لیکن اسکے فورا بعد ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر خالد مقبول صدیقی نے بلاول کے پرانے پاکستان کی بجائے بہتر پاکستان کی بات کی۔ بہتر پاکستان کی وضاحت کرتے ہوئے موصوف نے نئی حکومت کو مذکورہ اتحاد کے لئے اپنے وہ وعدے بھی یاد دلائے کہ جس کو من و عن پورا کرنے کی توقع وہ وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت سے بھی لگائے بیٹھے ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے اختر جان مینگل نے حکومت کو یاد دلایا کہ ان کے ووٹر اُن سے بڑی توقعات وابستہ کئے بیٹھے ہیں۔ بادی انظر میں موصوف وہی مطالبات متوقع وزیراعظم کے سامنے دہرا گئے جن مطالبات کو من وعن پورا نہ کرنے کی پاداش میں ان کی پارٹی نے تحریک انصاف کی حکومت سے علیحدگی اختیار کرکے حکومت کو گرانے کے لئے پہلا قدم اٹھایا۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے خالد مگسی، اسلم بھوتانی اورجمہوری وطن پارٹی کے شاہ زین بگٹی نے نئے وزیراعظم کو ملک کے پسماندہ علاقوں کے مسائل سے اگاہ کرتے ہوئے لاپتہ افراد کے مطالبے کو خصوصیت کے ساتھ دہرایا۔ اسی فلور پر نیشنل ڈیموکریٹک مومنٹ کے محسن داوڑ نے نئے وزیر اعظم کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے اطمینان ظاہر کیا کہ شہباز شریف کے پاکستان میں آئندہ کسی علی وزیر کو گرفتار نہیں کیا جائے گا۔ لیکن اتحادیوں کے علاوہ ایک بہت بڑاچیلنج حکومت کو عمران خان کی صورت میں ایک تگڑی اپوزیشن کی شکل میں پیش آئے گا جس کا اظہار اسمبلی کے فلور پر پارلیمانی امور کے سابق وزیر علی محمد خان کی جانب سے بھر پور انداز میں کیا گیا۔ عمران خان خود بھی مسلسل کہتے رہے ہیں کہ وہ کسی صورت چین سے نہیں بیٹھیں گے اور اگر ان کی حکومت کو ختم کردیا گیا تو وہ مزید خطرناک ہوکر سامنے آئیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا حکومت احتساب کے نام پر سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کاروائیوں کا آغاز کرتی ہیں یا جمہوریت کو بہترین انتقام قرار دے کر اپوزیشن کو ساتھ لے کر آگے چلتی ہے۔ شہباز شریف نے اپنے مختصر تقریر میں واضح کیا کہ وہ انتقامی کارروائیوں سے قطع نظر سب کو ساتھ لے کرآگے بڑھنا چاہتے ہیں، لیکن ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا کہ قانون اپنا راستہ لے گی۔ لیکن دوسری طرف انہی چیلنجز کے ساتھ حکومت نے بھی اپنا راستہ بنا نا ہوگا کہ وہ ہر صورت میں عوام کی توقعات پر پورا اتریں۔ ناکامی کی صورت میں اگلے عام انتخابات میں عمران خان اور اسکی پارٹی پوری قوت کے ساتھ حکومت کے خلاف ضرب لگانے کے لئے تیار ہوگی۔

مزید پڑھیں:  تجاوزات کی سرپرستی