شکست کو قبول کر لیں

وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد پورا ملک ہیجانی کیفیت میں مبتلا رہا، جس کی بدولت ہر شعبہ زندگی متاثر ہوا کیونکہ جس حکومت نے عوامی مسائل پر توجہ دینی تھی وہ خود اپنا مقدمہ لڑ رہی تھی۔ ریاستی رٹ کمزورہونے اور حکومت کی عدم توجہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مختلف مافیاز سرگرم ہو گئے، اگر اس ہیجانی کیفیت کا خاتمہ نہ کیا جاتا تو بحران سر اٹھا سکتا تھا۔ یہ صورتحال اس لئے پیدا ہوئی کیونکہ حکومت و اپوزیشن میں سے ہر کوئی خود کو درست سمجھتا رہا، جب ہم تحریک عدم اعتماد اور بیرونی سازش کو الگ الگ رکھ کر سوچیں گے تو اس کا حل بھی مل جائے گا۔حقیقت یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جو ان کا آئینی حق تھا، جبکہ وزیر اعظم عمران خان سمجھتے ہیں کہ بیرونی دباؤ کے تحت ان کے خلاف سازش کی گئی ہے، اس ضمن میں وہ ثبوت کے طور پر ایک خط پیش کرتے ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں اس خط کو ڈرامہ قرار دے رہی ہیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد قوی امید تھی کہ اب ہیجانی کیفیت کا خاتمہ ہو جائے گا مگر وزیر اعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں عندیہ دیا ہے کہ وہ شہباز شریف کو وزیر اعظم قبول نہیں کریں گے۔ اسی طرح ہفتہ کے روز ووٹنگ کیلئے طلب کئے جانے والے اجلاس میں ووٹنگ سے گریز کیا گیا تو ہیجانی کیفیت مزید بڑھ گئی۔ صرف یہی نہیں بلکہ عمران خان نے ایک بار پھر نوجوانوں کو سٹرکوں پر نکلنے کی کال دے دی ہے۔ اب چونکہ ووٹنگ ہو چکی ہے تو حالات بدل چکے ہیں، پہلے شکست کے خدشات تھے اب شکست یقینی ہو چکی ہے مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان حقیقت کو تسلیم کرنے کیلئے ذہنی طور پر تیار نہیں ہیں، عمران خان سے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ اقتدار کوچھوڑنے کیلئے اس طرح کا تاثر دیں گے، انہیں یہ جان لینا چاہئے کہ صرف جیت ہی کامیابی نہیں ہے بلکہ ہار کو کھلے دل کے ساتھ تسلیم کرنا بھی کامیابی ہی کہلاتا ہے۔ جو کپتان ہار کے بعد آگے بڑھ کر جیتنے والی ٹیم کو مبارک باد دیتا ہے اس کے طرز عمل کو سراہا جاتا ہے۔
عمران خان کی زندگی کا بڑا حصہ کھیل میں گزرا ہے تو ان سے بھی یہی توقع کی جا رہی تھی مگر ان کا طرز عمل شکست کو تسلیم کرنے کے برعکس دکھائی دے رہا ہے۔ جب ٹائی ٹینک جہاز ڈوب رہا تھا تو اس کے کپتان نے اپنے آپ کو بے رحم موجوں کے سپرد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس تباہی کا میں ہی ذمہ دار ہوں سو اس نے باقی لوگوں کو محفوظ راستہ فراہم کیا مگر خود راہ فرار اختیار نہیں کی حالانکہ اگر وہ چاہتا تو فرار ہو کر اپنی جان بچا سکتا تھا۔ عمران خان ایک سیاسی جماعت کے قائد ہیں جنہوں نے الیکشن 2018ء میں ایک کروڑ 70لاکھ ووٹ لئے تھے انہیں دوبارہ عوام کی عدالت میں جانا چاہئے، ایسا قطعی نہیں ہے کہ عوام میں وہ غیر مقبول ہو گئے ہیں لیکن جب وہ غیر آئینی راستہ کرنے کیلئے عوام کو اپنے ساتھ ملنے کیلئے کہیں گے تو اپنا سیاسی نقصان کریں گے۔ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں اپوزیشن کو بظاہر کامیابی حاصل ہوئی ہے اور تحریک انصاف بیک فٹ پر چلی گئی ہے، اب بیرونی سازش والے معاملے کی تحقیقات کرا لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ آ جانے کے بعد چونکہ اپوزیشن جماعتوں کا پلڑا بھاری ہو گیا تھا اس لئے وہ نہیں چاہیں گی کہ بیرونی سازش والے معاملے کی تحقیقات کرائی جائیں مگر بیرونی سازش کو یکسر مسترد کر دینا اخلاقی اعتبار سے درست نہ ہو گا۔ اپوزیشن جماعتوںکو کھلے دل کے ساتھ بیرونی سازش کی طے تک جانا چاہئے، اگر اپوزیشن جماعتیں اس پر توجہ نہیںدیتی ہیں تو یہی سمجھا جائے گا کہ جس طرح تحریک انصاف ووٹنگ سے راہ فراہ اختیار کرتی رہی ہے اسی طرح اپوزیشن جماعتیں بھی بیرونی سازش والے معاملے کی تحقیقات کرانے سے راہ فراہ اختیار کر رہی ہیں۔
تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے سے پہلے شہر اقتدار میں کئی امور ایسے ہوئے ہیں جس کی تفصیلات میڈیا پر نہیں آ سکی ہیں، وزیراعظم کے انتخاب کا مرحلہ ابھی باقی ہے شنید ہے تحریک انصاف قومی اسمبلی سے اجتماعی استعفے پیش کرنے پر غور کر رہی ہے۔ اگرچہ تحریک انصاف کو استعفے پیش کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہونا والا ہے کیونکہ اب ان کے پاس ایوان کی نمائندگی موجود ہے، استعفے دینے کے بعد وہ ایوان کی نمائندگی کھو دی گی، خالی نشستوں پر ضمنی انتخاب ہو گا اور ضمنی انتخاب ہونے کی صورت میں وہ اپنی جیتی ہوئی کئی نشستیں کھو بیٹھے گی، تاہم تحریک انصاف اپنی حریف جماعتوں کو ٹف ٹائم دینے کیلئے ایسا اقدام اٹھا بھی سکتی ہے۔ استعفے آنے کے بعد تحریک انصاف کی حریف جماعتوں کیلئے وقتی طور پر مشکلات پیدا ہو جائیں گی کیونکہ جب تک ایوان کے اراکین پورے نہیں ہوں گے تب تک ایوان کو چلانا آسان نہیں ہو گا۔ یوں خدشہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے فوری بعد وہی کھیل دوبارہ شروع ہو جائے گا جو تحریک انصاف کے دور حکومت میں جاری رہا ہے۔ سو حالات کا تقاضا ہے کہ کچھ اپنی منوا لیں اور کچھ مخالفین کی مان لیں۔ بیرونی سازش پر مبنی مراسلے کی تحقیقات شروع کرانے کا نو منتخب حکومت فائدہ اٹھا سکتی ہے کیونکہ جب تک تحقیقات ہوں گی اور فیصلہ آئے گا تب تک کئی امور کو نمٹایا جا چکا ہوگا۔ خطرناک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ نو منتخب حکومت اور تحریک انصاف اپنے اپنے مؤقف پر قائم رہتے ہوئے ایک دوسرے کیلئے مشکلات پیدا کرنے کا باعث بنیں رہیں تو ملک بحران کا شکار ہو جائے گا ایسی صورت میں فائدہ کسی کا بھی نہیں ہو گا، مجبوراً نئے انتخابات کرانے ہوں گے۔

مزید پڑھیں:  اردو سائنس بورڈ پھر سے فعال ہورہا ہے