اور تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی

چند روز قبل قومی اسمبلی میں جس انداز سے عدم اعتماد کی تحریک کو مسترد کیا گیا اور پھر فوری طور پر جب قومی اسمبلی کی تحلیل ہوئی تو ایک آئینی بحران پیدا ہوا، یہ پورا عمل آئین و قانون سے متصادم تھا۔ قائد ایوان نے اپنے ہی ایوان کو ختم کرڈالا۔ ان کے حمایتی خوش تھے کہ اُنہوں نے اپوزیشن پر فتح حاصل کر لی اور ان کا یہ منصوبہ ناکام بنا دیا۔ ماضی میں جب بھی کسی آمر نے آئین کو پامال کیا اور اپنے اس غیر قانونی عمل کے حق میں جو تاویل بھی دی، اسے ہمارے مُلک کی اشرافیہ نے من وعن تسلیم کیا۔ آئین کو محض کورا کاغذ سمجھنے والوں کا ساتھ دیا۔ اب بھی ایک اکثریت نے حکومتی تاویل کو معتبر جانا اور وزیر اعظم کی جانب سے ہوا میںلہرائے جانے والے ایک خط کو مُلک کے آئین پہ فوقیت دی۔ اس خط کے بارے میں کہا گیا کہ یہ دھمکی آمیز خفیہ کیبل وزیر اعظم کے نام ہے جس سے مُلکی سلامتی کو خطرہ درپیش ہے۔ پاکستانی سفارت خانہ سے موصول ہونے والی یہ امریکی دھمکی صرف وزیر اعظم تک محدود تھی ، اس سے عسکری قیادت کیوں بے خبر رہی۔ سب کو علم ہے کہ سفارتی آداب کے مطابق جب کسی مُلک کی اہم شخصیت کی ملاقات سفیر سے ہوتی ہے تو وہ اس ملاقات کا خلاصہ خفیہ کیبل کے ذریعے اپنے مُلک کو ارسال کر دیتا ہے اور یہ معمول کے سفارتی اور تجزیاتی خطوط سمجھے جاتے ہیں۔ اسی خفیہ کیبل کو عدم اعتماد کے مسترد ہونے کا جواز بنایا گیا۔ اس آئینی بحران کی شدت کو محسوس کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے فوری نوٹس لیا ۔مسلسل چار روز کی سماعت میں فریقین کے دلائل سنے اور متفقہ تاریخی فیصلہ جاری کرتے ہوئے نہ صرف ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غیر آئینی قرار دی بلکہ قومی اسمبلی کو اس کی پوزیشن پر بحال کر دیا۔ عدالتِ عظمیٰ کے حکم پر ہفتہ کے روز قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا گیا تاکہ وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر رائے شماری کی جا سکے۔ اگر تحریک کامیاب ہوئی تو پھر نئے وزیر اعظم کا انتخاب کیا جائے گا وگرنہ ناکامی کی صورت میں موجودہ حکومت اپنے امور بدستور انجام دیتی رہے گی۔ آئینی ماہر ین کے مطابق اس فیصلے میں جمہوریت اور آئین کی بالادستی کا احترام باقی رہ گیا جبکہ اک بار پھر سر اٹھانے والا نظریہ ضرورت دفن ہو گیا ہے۔اپوزیشن نے بھی اس فیصلہ کو آئین کی فتح قرار دیا۔ اس کے برعکس رات کو وزیر اعظم نے قوم سے خطاب کیا اور برملا کہا کہ عدالتی فیصلہ تسلیم مگر کسی امپورٹڈ حکومت کو ہر گز نہیں مانتا۔ اُنہوں نے کہا کہ مجھے سپریم کورٹ کے فیصلے سے مایوسی ہوئی ہے اور عوام کو پر امن احتجاج کرنے کے لیے باہر نکلنے کی دعوت دی کہ ہم نے جمہوریت اور سالمیت کی حفاظت کرنی ہے اور ضمیر خرید کر ڈرامہ کرنے والوں کا محاسبہ کرنا ہے۔
ہفتہ کے روز صبح دس بجے سے شروع ہونے والا قومی اسمبلی کا اجلاس وقفہ وقفہ سے رات گئے جاری رہا۔ حکومتی جماعت اور اپوزیشن کے ارکان خطاب کرتے رہے بلکہ ایک دوسرے کو حسب معمول تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ وزیر اعظم بھی ایوان سے غیر حاضر تھے اور اُن کی اس مسلسل غیر حاضری کا مذاق اُڑایا گیا کہ وہ کیسے ایک بین الاقوامی شہرت کے کھلاڑی رہے ہیں جو اپنی ٹیم کو اکیلا چھوڑ کر میدان سے غائب ہیں۔ اپوزیشن نے بارہا مطالبہ کیا کہ عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے پر عمل کرتے ہوئے فوراً رائے شماری کی جائے مگر سپیکر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرنے کو تیارنہ تھے۔ یہاں تک کہ سپیکر رات دس بجے کے بعد دو بار وزیر اعظم کو ملنے گئے۔ اس وقت مختلف افوائیں گردش کرتی رہیں اور اسی دوران وزیر اعظم نے کابینہ کا اجلاس بھی طلب کر لیا۔ اُدھر سپریم کورٹ کے بارے یہ اطلاع آئی کہ رات بارہ بجے عدالت کا کمرہ کاروائی کرنے کے لیے کھول دیا جائے گا۔ایسے میں رات بارہ بجے سے کچھ دیر قبل قومی اسمبلی کے سپیکر وزیر اعظم ہاؤس سے واپس ایوان آئے اور اپنے استعفیٰ کا اعلان کیا۔اُنہوں نے کہا کہ میرے پاس دھمکی آمیز خط پہنچ گیا ہے جسے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف بھی دیکھ سکتے ہیں۔سپریم کورٹ کے فیصلہ کو تسلیم کرتے ہوئے اُنہوں نے چیرمین پینل سے مسلم لیگ کے رکن اسمبلی ایاز صادق کو دعوت دی کہ وہ ایوان کی کاروائی کو مکمل کریں۔ اس کے بعد رائے شماری کی گئی اور ارکان کی مطلوبہ تعداد پوری ہونے پر عدم اعتماد کی تحریک کامیاب قرار دی گئی۔ اپوزیشن ارکان نے تقریریں کیں اور ایک دوسرے کے علاوہ پوری قوم کا شکریہ ادا کیا۔ اپوزیشن کے موجودہ قائد اور متوقع قائد ایوان نے ایک نئی صبح کی نوید دی اور کہا کہ ہم کسی سے بدلہ نہیں لیں گے بلکہ قوم کے دکھوں پر مرہم رکھنا چاہتے ہیں۔ اپوزیشن کی تمام جماعتوں کا اصل امتحان اب شروع ہوا ہے کہ اقتدار میں آ کر وہ عوام کو معاشی بحران سے نکالنے کے ساتھ ساتھ اُن کے دیگر بنیادی مسائل کیسے حل کرتے ہیں۔ اس وقت عوام کی ایک اکثریت مہنگائی کا شکار ہے، وہ کسی دھمکی آمیزخط، سفارتی خفیہ کیبل اور آئینی بحران میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ اگر نئی حکومت اس مختصر وقت میں عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر تحریک عدم اعتماد کی طرح وہ یقیناً اگلے عام انتخابات میں بھی سرخرو ہوگی۔

مزید پڑھیں:  تاریخ خود کو دہراتی رہتی ہے