مشرقیات

ٹائمز آف انڈیا (18جولائی 1983ئ) میں ایک دلچسپ قصہ شائع ہوا ہے۔ ہندوستان کے ایک لیڈر جن کا نام درج نہیں’ 1970ء میں فرانس گئے۔ پیرس میں ان کی ملاقات ایک فرانسیسی لیڈر سے ہوئی حکمران گالسٹ پارٹی سے تعلق رکھتا تھا۔ اخبار کی رپورٹ کے مطابق ہندوستانی لیڈر کے درمیان گفتگو کا ایک حصہ حسب ذیل تھا:
فرانسیسی لیڈر نے پوچھا: ”کیا آپ پیرس میں کوئی خاص چیز پسند کریں گے ۔”
ہندوستانی لیڈر نے جواب دیا: ”میں جنرل ڈیگال سے بہت متاثر ہوں اور میری خواہش ہے کہ ان سے ملاقات کروں۔”
کہنے والے نے کہا: ”مگر جناب ان کا تو انتقال ہو گیا۔”
ہندوستانی لیڈر نے کہا: ”کیا’ ہندوستان میں فرانس کے حالات بتاتے ہوئے تو کسی نے مجھ سے یہ بات نہیں کہی۔”
کہنے والے نے دوبارہ کہا: ”انہوں نے فرض کیا ہو گا کہ آپ اس کو جانتے ہیں۔ جنرل ڈیگال چار سال پہلے مر چکے ہیں۔”
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہر بات بتائی نہیں جا سکتی ضروری ہے کہ آدمی خود کچھ باتوں کو جانے۔ سننے والا اگر پچاس فیصد بات جانتا ہو تو اس کو بقایا پچاس فیصد بات بتائی جا سکتی ہے۔ اگر وہ نصف بات پہلے سے نہ جان چکا ہو تو بقیہ نصف بھی وہ نہ جان سکے گا۔ خواہ وہ بات کتنی ہی معقول ہو اور کتنے ہی زیادہ دلائل کے ساتھ اس کو پیش کر دی جائے۔
آج کسی سے کہئے کہ ”فلاں کھلاڑی نے سنچری بنائی ” تو وہ فوراً سمجھ لے گا کہ اس سے مراد کرکٹ کے ایک سو رَن ہیں۔ مگر یہ کہئے کہ ”قوم کی ترقی کے لیے ایک سنچری کی جدوجہد درکار ہے۔” تو اس کو کوئی نہیں سمجھتا۔ کیونکہ تعمیر قوم کے معاملے میں سو سالہ جدوجہد سے کوئی واقف نہیں۔

مزید پڑھیں:  ووٹ کو عزت دو؟؟