لانگ مارچ کیوں ناکام ہوا؟

کہاوت ہے کہ جب گیدڑ کی شامت آئی تو اس نے شہر کا رخ کر لیا اس طرح عمران خان لانگ مارچ لے کر اسلام آباد آ گئے۔دراصل عمران خان جب عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے فارغ ہوئے تو انہوں نے امریکی سازش کا بیانیہ اپنا لیا اور ان کے اس بیانیے کو کچھ حد تک پذیرائی بھی ملی کیونکہ عمران خان نے جب ملک کے مختلف شہروں میں جلسے شروع کئے توعوام کی خاطر خواہ تعداد امڈ آئی جس سے ان کو شہ ملی اور ان کا حوصلہ اتنا بلند ہوا کہ انہوں نے نئی نویلی حکومت کو دھمکیاں دینا شروع کر دیں کہ وہ جلد انتخابات کا اعلان کرے ورنہ وہ اسلام آباد میں عوام کا ایسا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر پہنچے گا جو حکومت کو بہا لے جائے گا، انہوں نے اداروں کو بھی دباؤ میں لانا شروع کر دیا اور جلسوں میں اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں کہا کہ اس نے ”نیوٹرل” رہ کر برائی کا ساتھ دیا ہے جس کے ازالے کے لئے اب دہ جلد انتخابات کا اعلان کروائے، اس کے ساتھ سپریم کورٹ کو بھی نشانے پر لیتے ہوئے کہا کہ صرف چوروں کے لئے رات کے بارہ بجے عدالتیں کھولی گئیں ورنہ اوروں کیلئے یہ کبھی نہیں کھلیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسٹیبلشمنٹ نے بھی حکومت کو جلد انتخابات کرانے کے لئے دباؤ ڈالا اور سپریم کورٹ نے بھی عمران خان کے حق میں فیصلے دینا شروع کر دیئے مثلاً جب تحریک انصاف نے سپریم کورٹ میں یہ شکایت کی کہ حکومت نے ایف آئی اے میںاعلیٰ حکام کے تبادلے کر کے اداروں میں مداخلت کی ہے تو اعلیٰ عدلیہ نے نہ صرف حکومت کو ایسے اقدام سے روک دیا بلکہ اس کی تحقیقات کا حکم بھی دیا جس سے عوام میں تاثر پھیلا کہ اداروں کے یہ اقدامات شاید عمران خان کے جلسوں کے دباؤ کا نتیجہ ہیں۔ بڑے جلسوں اور اداروں کے ان کے حق میں فیصلوں نے ان کا دماغ اس قدر آسمان پر پہنچا دیا کہ وہ اپنے آپ کو عالمی لیڈر سمجھنے لگے اور ان کا خیال تھا کہ اب وہ کسی بھی وقت کسی بھی حکومت کو چلتا کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے بغیر سوچے سمجھے25 مئی کو اسلام آباد میں لانگ مارچ کا اعلان کر دیا اور بڑی رعونت سے کہا کہ جب تک اسمبلیاں تحلیل نہیں ہوتیں اور انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں ہوتا تب تک وہ ڈی چوک میں اپنا دھرنا جاری رکھیں گے، ساتھ بیوروکریسی کو بھی دھمکی دے ڈالی کہ وہ حکومت کی مدد کرنے سے باز رہے ورنہ ہم ان کو بھی دیکھ لیں گے۔ عمران کے اس جارحانہ اور دھکی آمیز رویے کا یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ وہ اپوزیشن جو اس سے قبل انتخابات کے معاملے میں نہ صرف کنفیوژن کا شکار تھی بلکہ منقسم تھی سوائے آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن کے باقی ساری اپوزیشن جلد انتخابات کے حق میں تھی فوراً نہ صرف متحد ہو گئی بلکہ مدت پوری کرنے پر بھی یک زبان ہو گئی۔ سب کو توقع تھی کہ عمران خان بنی گالاسے ہی لانگ مارچ کی قیادت کرتے ہوئے ڈی چوک پہنچیں گے لیکن حیرانگی اُس وقت ہوئی جب عمران خان نے عین مارچ والے دن اعلان کیا کہ وہ صوابی سے لانگ مارچ لے کر اسلام آباد پہنچیں گے۔کہا جاتا ہے کہ ان کو دو دن قبل ہی معلوم ہو گیا تھا کہ لاہور سمیت پنجاب سے بڑی تعداد میں لوگ نہیں نکلیں گے اس لئے دو دن قبل ہی انہوں نے پشاور میں ڈیرے ڈال دیئے تھے اور انہیں کے پی کے سے کثیر تعداد میں لوگوں کے نکلنے کی امید تھی لیکن تمام تر سرکاری وسائل استعمال کرنے اور سرکاری لوگوں کو ساتھ ملانے کے باوجود صرف دس سے پندرہ رہزار افرادکا قافلہ ان کے ساتھ نکلا جبکہ عمران خان نے 20لاکھ لوگ لانے کا دعویٰ کیا تھا اور اسلام آباد پہنچ کرآگے پانچ چھ ہزار سے زیادہ کا مجمع انہیں نظر نہ آیا۔ یہی وجہ تھی کہ اتنی کم تعداد سے مایوس ہو کر انہوں نے ڈی چوک سے پہلے ہی جناح ایونیو پر مختصر خطاب اور حکومت کو چھ دن کا الٹی میٹم دینے کے بعد لانگ مارچ کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ بعض تجزیہ کاروں کے نزدیک ان کے چھ دن کا الٹی میٹم ”فیس سیونگ” کے طور پر ہے۔ عمران خان نے جلسوں کے ذریعے جو اپنا ٹیمپو اور ماحول بنایا تھا وہ جناح ایونیو پر آ کرڈھیرہو گیا۔ اگر وہ لانگ مارچ نہ کرتے تو ان کا پریشر آج بھی قائم رہتا۔ دراصل جو لوگ جلسوں میں شرکت کرتے ہیں ضروری نہیں کہ وہ سڑکوں پر نکل کر پولیس کی لاٹھیاں بھی کھائیں۔ جلسوں کا مجمع اور ہوتا ہے جب کہ لانگ مارچ اور دھرنوں کیلئے قربانیاں دینے والے اور لوگ ہوتے ہیں، عمران خان کو اب یہ غلط فہمی دور کر لینی چاہیے ۔ دوسرا ان کی ضد، انا اور دھمکیوں نے اپوزیشن کو مدت پوری کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ بیورو کریسی اور پولیس کو دھمکیاں دینے سے بھی انہیں نقصان پہنچا کیونکہ اسی بیوروکریسی اور پولیس نے لانگ مارچ کو ناکام بنانے کیلئے حکومت کا بھر پور ساتھ دیا۔ ان کے دھرنا نہ دینے کے پیچھے بھی تین عوامل کار فرما تھے ایک عوام کا کم تعداد میں ہونا دوسرا سپریم کورٹ کی حکم عدولی کرتے ہوئے ڈی چوک تک آجانا اور کارکنوں کا جلاؤ گھیراؤ کرنا جب کہ تیسرا ریڈ زون پر فوج کا تعینات ہونا شامل ہیں۔ عمران خان کو چاہیے کہ وہ لانگ مارچ کی ناکامی پر نہ صرف غور کریں بلکہ اپنے رویے میں بھی تبدیلی لائیں۔

مزید پڑھیں:  پپیتا، چقندر اور ڈینگی