مشرقیات

آپ کی تاریخ پر روشنی ڈالنا مقصد ہے نہ ہی آپ کو خارجہ معاملات پر کوئی درس دینے کی کلاس لینی ہے بس سامنے کے کچھ حقائق ہیں جن پر سوچنا شروع کر یں تو سمجھ آ جاتی ہے کہ ہم سے اگلے پچھلے سارے بدلے لینے والوںنے کس طر ح ہمیں گھیر گھار کر ایسے مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ آگے کنواں تو پیچھے کھائی ہے۔ آئی ایف ہو یا امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک ان پر تکیہ کرکے ہم بیٹھ گئے اول دن سے اور ساتھ ہی اپنے خارجہ معاملات تو چھوڑیں داخلہ امور بھی ان کے حوالے کر دیئے، بدلے میں ہمیں جو بھی ملا اس کا سارا مآل یہ ہے کہ آپ اور میں ایک معاشی بحران کا سامنا کر رہے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ اسی عطار کے لونڈے سے دوا کے بھی محتاج ہیں جس نے ہمیں یہاں لاکھڑا کیا ہے۔

یہ سبق ہے اس بات کا کہ بندے کو رزق روزگار کے کاموں میں خود انحصاری کے ہر موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیئے کہ وہ صرف اسی صورت میں اپنا ایک مؤقف رکھ سکتا ہے بصورت دیگر بھکاریوںکے پاس کوئی حق انتخاب کہاں؟ ہمارے پاس حق انتخاب نہیں ہے مطلب یہ کہ اب ہم قرض کی مے پیتے رہیںگے اور اس خوش فہمی کو بھی پالتے رہیںگے کہ رنگ لائے گی فاقہ مستی ہماری ایک دن۔ سوال یہ ہے کہ ستر سالوں میں یہ رنگ لائی ؟ نہیں تو آئندہ ستر سال میںجب بھکاریوںکے پاس کوئی حق انتخاب بھی نہ ہو تو کس طرح اسی قرض یا بھیک کی مے سے ہم اپنی حالت سدھاریں گے ؟ کیا وقت نہیں آگیا کہ زندگی کی ہر سختی برداشت کرکے ہم خود انحصاری کے سفر پر نکلیں۔ لینے والا نہیں دینے والاہاتھ بن جائیں۔ وہی گنے چنے دوست جو دوستی کے نام پر ہم سے اپنا مطلب نکالنے رہے انہیں ان کی حد میں رکھتے ہوئے اپنی حد کے گرد بھی سرخ لکیر کھینچ لیں۔

مزید پڑھیں:  کرم یا آتش فشاں؟

اپنا مفاد دیکھتے ہوئے ہر کوئی اپنی حکمت عملی بناتا ہے ہماری حکمت عملی میں خود سے زیادہ کسی اور کے مفاد کو مقدم رکھا جاتا ہے اور نتیجے میں ہمیں بھیک مل جاتی ہے امداد کے نام پر۔ آپ اور میں کب سوچیں گے کہ دنیا صرف مغرب کا نام ہی نہیں ہے مشرق میں بھی وسائل کے تمام امکانات موجود ہیں ان سے استفادہ کیوں نہیں کیا جاتا؟ اریب قریب کے پڑوسی ممالک کو چھوڑکر عشروں ہم نے سات سمندر پار سے جو امیدیں وابستہ کیے رکھیں وہ سراب ثابت ہوتی رہیں پھر بھی ہم ایک نئے سراب کے پیچھے کیوں چل پڑے۔ اپنا قبلہ درست کیجئے، پرانی روش پر چلنا کب تک، نئے راستے بھی ہیں اور موقع بھی،کسی کی ناراضگی کے خوف سے آپ کب تک اپنے قومی مفاد کو قربان کرتے رہیں گے؟ وہ بھی ان کے لیے جو ضرورت پڑنے پر کبھی ہمارے کام نہیں، البتہ ضرورت اور ہماری مجبوری سے فائدہ اٹھانے والوں میں پیش پیش رہے ۔

مزید پڑھیں:  خواجہ آصف کابیان ،گودی میڈیا سیخ پا