لہو لہان ہوا شہر ان کے جھگڑوں میں

فتح مکہ کے موقع پر ہادی برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو جو ہدایات فرمائیں وہ صرف انسانوں ہی کے لئے نہیں تھیں بلکہ فطرت کے دوسرے مظاہرے بارے میں بھی تھیں ‘ حضور پر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا’ کسی بزرگ پر تلوار نہ اٹھانا ‘ عورتوں اور بچوں کو کوئی گزند نہ پہنچانا ‘ جو لوگ تم سے منہ موڑ لیں یعنی جنگ نہ کرنا چاہیں ‘ ان سے کوئی تعرض نہ کرنا ‘ کھیتوں اور درختوں کو نقصان نہ پہنچانا ۔ درخت لگانے کو ویسے بھی صدقہ جاریہ قرار دیا گیا ہے ‘ محولہ بالا صورتحال اصلی ریاست مدینہ کی تھی جس سے عقل و خرد اور فہم و فراست کی پھوٹنے والی روشنی نے آنے والے زمانوں کو منور کیا اور صرف مسلمانوں ہی نے نہیں ‘ غیر مسلم ا قوام نے بھی انہیں اپنا کر فائدہ اٹھایا ۔
نہ ہوا ‘ پر نہ ہوا ‘ میر کا انداز نصیب
ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
یعنی جس نے ریاست مدینہ کے قیام کے دعوئے کئے ‘ اس کے لشکریوں نے گزشتہ روز اسلام آباد کے گرین ایریاز کو جلا کر ثابت کر دیا کہ ریاست مدینہ کے دعوے صرف ” اسلامی ٹچ” ہی تھے ‘ ہم اس تفصیل میں نہیں جاتے کہ جن عاقبت نا اندیشوں نے یہ ظلم کیا ‘ انہوں نے نہ صرف اسلام آباد کی خوبصورتی کو تباہ کرتے ہوئے ‘ ماحول اور فضا کو کتنا نقصان پہنچایا ‘اور کتنا قومی نقصان کیا ‘ کیونکہ پودے کو درخت بننے میں مدتوں لگتے ہیں ‘ ان پودوں اور پھولوں کی پرداخت پر کتنی رقم خرچ ہوئی ‘ برسوں سی ڈی اے کے پانی کے ٹینکروں نے ان علاقوں کو پانی دے کر پودوں سے درخت اور خوبصورت کیاریوں میں پھولوں کی پرداخت پر ان کو کتنی محنت کرنی پڑی ‘ جبکہ ” لشکریوں”نے آناً فاناً انہیں آگ لگا کر بھسم کرنے میں کتنی دیر لگائی؟ ہم پشاور کے باسی گرین ایریاز کے لئے جس طرح بار بار ترسے ہیں اور ہم یہ نظارے (آگ لگانے والے نہیں) دیکھ چکے ہیں کہ ایک حکومت جی ٹی روڈ پر پودے لگا کر ان کی پرداخت کرتی تھی تو آنے والی ایک اور حکومت”ترقی” کے نام پر اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے محنت سے لگائے گئے پودے وغیرہ اکھاڑ کر پشاور کو ”پھولوں کا شہر” بنانے میں کامیاب ہو جاتی تھی ‘ بھگت کبیر نے ایسی محبت کو کتنی خوبصورتی سے اجاگر کیا ہے
پریتم ایسی پریت نہ کر یو جیسی کرے کھجور
دھوپ لگے تو سایا نا ہی بھوک لگے پھل دور
پریت نہ کریوپنچھی جیسی ‘ جل سوکے اڑ جائے
پریت تو کریو مچھلی جیسی ‘ جل سوکے مر جائے
پریت کبیر ایسی کریو جیسی کرے کپاس
جیو تو تن کو ڈھانپ کے رکھے ‘ مرو نہ چھوڑے ساتھ
پشاورکا تذکرہ تو خیر جملہ ہائے معترضہ کے طور پر آگیا ‘ اصل مسئلہ تو اسلام آباد کے گرین بیلٹ کو ”انتقام” کی آگ سے بھسم کرنے کا تھا ‘ اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ ہجوم بے قابو تھا ‘ کوئی رہنما نہیں تھا جو انہیں روکتا ‘ حالانکہ ایک رہنما کی ویڈیو وائرل ہوچکی ہے اس میں موصوف کارکنوں کو ” ہدایات”دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور اپنی گاڑی پر کھڑے ہو کر بقول شیخ رشید”جلائو گھیرائو” کی تلقین کرتے کرتے گاڑی سے گر بھی پڑے تھے ‘ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ کارکن غلطی سے بلیو ایریا اور ڈی چوک پہنچنے کہ انہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ جلسہ کہاں منعقد ہونا ہے ‘ حالانکہ ”موصوف” کنٹینر پرکھڑے ہو کر مائیکرو فون کے ذریعے ڈی چوک پہنچنے کی ہدایات دیتے ہوئے بھی دکھائی دے رہے ہیں ‘ اس صورتحال کو شاعر نے کتنی خوبصورتی سے واضح کیا ہے کہ
وہ جنگ اپنی انائوں کی لڑ رہے تھے مگر
لہولہان ہوا شہر ان کے جھگڑوں میں
سوشل میڈیا پراٹھنے والے سوالوں کے مطابق بعض لوگ اس ساری صورتحال کی ذمہ داری عدالت عظمیٰ کے اس پانچ رکنی بنچ پرعائد کر رہے ہیں جس بنچ نے جلسہ کرنے ‘ جلوس کے اسلام آباد کے ہر علاقے میں آنے بلکہ ”دندنانے” کی اجازت مرحمت فرمائی اور مطالبہ کیا ہے کہ بنچ کے معزز ارکان اس نقصان کو اپنی جیبوں سے بھریں ‘ خیر ہم تو اس مطالبے کی حمایت کی جرأت نہیں کر سکتے کہ کمزور چمڑی کے لوگ ہیں ‘ اپنے سائے سے بھی خوفزدہ ہوجاتے ہیں ‘ مگر آج کی سوشل میڈیا اتنی بیباک ہوچکی ہے کہ وہ کوئی بھی سوال اٹھانے ‘ اعتراض کرنے سے نہیں چوکتی ‘ ہم تو اس ساری صورتحال میں جماعت اسلامی کے اس اقدام اور طرز فکر کو دیکھ رہے ہیں ‘جس نے جلے ہوئے درختوں کی جگہ نئے پودے لگا کر احساس ذمہ داری کو مہمیز کیا ‘ یقیناً یہ ایک مثبت انداز فکر ہے ‘ اگرچہ ان پودوں کو ایک بار پھر مقررہ بلندی تک پہنچنے میں برسوں لگ جائیں گے مگر کوئی تو ہے جس نے شہر اقتدار کولگے زخموں پر مرہم رکھنے کی نہ صرف سوچ اپنائی بلکہ عملی اقدام بھی اٹھایا ‘ وگر نہ تو اسی شہر میں چند روز پہلے ایک ٹک ٹاکر نے شوٹنگ کا شوق پورا کرنے کے لئے بھی اپنے ساتھیوں کی مدد سے آگ لگوائی تھی اور اب جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے ۔
لائے ہیں لوگ شہر بچانے کے واسطے
مٹی کا تیل ‘ آگ بجھانے کے واسطے

مزید پڑھیں:  پپیتا، چقندر اور ڈینگی