مخصوص نشستوں کی تقسیم کا معاملہ، سماعت کل تک ملتوی

ویب ڈیسک: سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کے خلاف کیس کی سماعت پشاور ہائیکورٹ میں ہوئی جس کی سماعت جسٹس اشتیاق ابراہیم کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ نے کی۔
5 رکنی لارجر بینچ کے دیگر اراکین میں‌ جسٹس اعجاز انور، جسٹس ایس ایم عتیق شاہ، جسٹس شکیل احمد اور جسٹس سید ارشد علی شامل ہیں۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل، الیکشن کمیشن کے وکیل، درخواست گزار وکیل قاجی انور ایڈووکیٹ اور فریقین وکلا پیپلز پارٹی کے نیر بخاری، فیصل کریم کنڈی اور ایچ فاروق نائیک بھی عدالت میں موجود تھے۔
اس موقع پر دلائل دیتے ہوئے قاضی انور ایڈووکیٹ نے کہا کہ آزاد امیدواروں نے 3 روز میں سنی اتحاد کونسل کو جوائن کیا۔
اس پر جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ ‏کیا سنی اتحاد کونسل کا کوئی امیدوار کامیاب ہوا۔
جسٹس ارشد علی نے کہا کہ ‏سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے تو خود ازاد حیثیت میں الیکشن لڑا۔
قاضی انور ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ ‏بالکل انکا کوئی امیدوار بھی کامیاب نہیں ہوا۔
جسٹس ارشد علی نے مزید کہا کہ آپ نے 21 فرروی کو مخصوص نشستوں کی لسٹ دی ہے۔ قاضی انور ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ ‏ہم نے سنی اتحاد کونسل کو جوائن کیا تو اس کے بعد لسٹ دی۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے پھر سوال کیا کہ ‏مخصوص نشستیں اگر خالی چھوڑی جائیں تو پھر پارلیمنٹ پورا نہیں ہوگا۔
قاضی انور نے اس موقع پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ ‏آئین کہتا ہے کہ مخصوص نشستیں دوسری پارٹیوں کو نہیں دی جا سکتیں۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کہا کہ ہم اٹارنی جنرل کو آج سنیں گے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ‏درخواست گزار پارٹی نے جنرل الیکشن میں حصہ نہیں لیا۔ ‏سیاسی جماعتوں کو الیکشن سے قبل مخصوص نشستوں کی لسٹ جمع کرنا پڑتی ہے۔
عدالت کی جانب سے پوچھا گیا کہ آپ کے دلائل سے لگتا ہے سنی اتحاد کونسل سیاسی جماعت نہیں، جسٹس ارشد علی نے کہا کہ ‏ سنی اتحاد کونسل پارلیمنٹری پارٹی ہے یا نہیں۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ‏جب ایک پارٹی سیٹ حاصل کرتی ہے تو وہ پارلمینٹری پارٹی ہے، سیاسی جماعت کو جنرل الیکشن میں سیٹ جیتنا لازمی ہے۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ریمارکس دیئے کہ ‏لگتا ہے الیکشن ایکٹ 2017 کو پاس کرتے وقت پارلیمنٹ نے مخصوص نشستوں کا معاملہ زیر غور نہیں لایا۔
اٹارنی جنرل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ‏آئین پارلیمنٹ میں خالی نشست کی اجازت نہیں دیتا، اگر کوئی آزاد حیثیت برقرار رکھنا چاہتا ہے تو مخصوص نشستوں کے حصول سے انہیں نکالا جائے گا۔
جسٹس ارشد علی نے کہا کہ ‏اب تو یہ صورتحال ہے کہ آزاد امیدواروں نے پارٹی کو جوائن کیا ہے، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ پھر تو ‏جنرل سیٹس کے علاوہ مخصوص نشستوں کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
پشاور ہائیکورٹ میں پی پی پی کے وکیل فاروق ایچ نائیک سے جسٹس اعجاز انور نے سوال کیا کہ ‏آپ یہ بتادیں کہ صوبے میں آپ نے کتنی نشتیں جیتی اور مخصوص نشستیں کتنی ملیں، اس پر فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ ‏مجھے ابھی نمبرز یاد نہیں۔ ‏
پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ آئین میں مخصوص نشستوں کی تقسیم کا طریقہ کار واضح ہے۔ ‏یہ جو کہتے ہیں کہ انکی سیٹیں لی گئی ہیں یہ غلط ہے، سیٹیں لینے کیلئے ہونی بھی چاہئیں، یہ سیاسی جماعت کی سیٹیں ہوتی ہیں۔
جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ ‏بالکل یہ واضح ہے کہ یہ سیاسی جماعتوں کی نشستیں ہیں۔
ن لیگ کےوکیل بیرسٹرحارث عظمت کا کہنا تھا کہ فیڈرل نوٹیفیکیشن کو ہائیکورٹ ختم نہیں کرسکتا، لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ بھی موجود ہے۔
اس پر جسٹس اعجاز انور نے واضح کیا کہ ‏آپ 5 رکنی بنچ کےسامنےسنگل بنچ کا فیصلہ پیش کررہےہیں۔
جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضی نے کہا کہ ‏آخری تاریخ کے بعد کوئی فہرست نہیں دی جاسکتی۔ واضح ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے والی پارٹی کو مخصوص نشستیں ملیں گی۔
انہوں نے کہا کہ اس پارٹی نے اپنے نام سے الیکشن نہیں لڑا، جسٹس عتیق شاہ نے جواب دیا کہ ‏ویسے آپ نےبھی تو اس پارٹی کو فراخدلی سے آفر کیا، اس پر کامران مرتضی نے جواب دیا کہ ‏نہیں ہم نےآفر نہیں کیا، ان سے ٹرین مس ہوگئی۔
جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیئے کہ ‏یہ ایسا ہے جیسے مالی غنیمت تقسیم ہوا ہو۔
‏پشاور ہائیکورٹ نے تمام پارٹیوں کے دلائل سننے کے بعد الیکشن کمیشن سے تفصیل مانگ لی۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے اس موقع پر قاضی انور ایڈووکیٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ قاضی صاحب کیا آپ دلائل دینگے، جواب میں قاضی انور نے کہا کہ ‏اگر کیس کل تک ملتوی کردیں تو میں دلائل دے سکتا ہوں۔
‏نو تعینات ایڈووکیٹ جنرل شاہ فیصل اتمانخیل نے بھی سماعت کل تک ملتوی کرنے کی استدعا کردی۔
‏بعد ازاں عدالت نے سماعت کل صبح 9 بجے تک ملتوی کردی۔

مزید پڑھیں:  الیکشن کمیشن نے 39ارکان قومی اسمبلی کو پی ٹی آئی ممبرتسلیم کرلیا