چیف جسٹس

ججزکےخط پرازخودنوٹس:عدلیہ کی آزادی پرسمجھوتہ نہیں ہو گا،چیف جسٹس

ویب ڈیسک: سپریم کورٹ میں اسلام ہائیکورٹ کے ججز کے خط کے معاملے پر ازخود نوٹس کی سماعت جاری ،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ عدلیہ کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا، کیا ہم نے فیصلہ کرلیا ہے کہ ہمیں ملک اور قوم کو برباد کرنا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ ازخود نوٹس کی سماعت کر رہا ہے، بینچ میں جسٹس منصورعلی شاہ،جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہرمن اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اخترافغان بھی شامل ہیں۔
سماعت کے آغاز پر وکیل حامد خان نے کہا ہم نے لاہورہائیکورٹ بارکی طرف سے ایک پٹیشن کل دائر کی ہے، لاہور بار سب سے بڑی بار ہے جس نے پٹیشن دائر کی ہے جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا حامد خان آپ سے زیادہ قانون کون جانتا ہے، اب وہ زمانے چلے گئے جب چیف جسٹس کی مرضی ہوتی تھی، اب تین رکنی کمیٹی ہے جو کیسز کا فیصلہ کرتی ہے، نہ کمیٹی کو عدالت کا اختیار استعمال کرنا چاہیے نہ عدالت کو کمیٹی کا اختیار استعمال کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کمیٹی کو عدالت اور عدالت کو کمیٹی کے کام میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے، آج کل ہم گوبلز کا زمانہ واپس لا رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے وکیل حامد خان سے استفسار کیا آپ نے کوئی درخواست دائر کی ہیتو کمیٹی کو بتائیں، پٹیشنز فائل ہونے سے پہلے اخباروں میں چھپ جاتی ہیں، کیا یہ پریشر کیلئے ہے؟ میں تو کسی کے پریشر میں نہیں آتا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے نئی چیز شروع ہو گئی ہے، وکیل کہہ رہے ہیں ازخود نوٹس لیں، جو وکیل ازخود نوٹس لینے کی بات کرتا ہے اسے وکالت چھوڑ دینی چاہیے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا عدلیہ کی آزادی پرکسی قسم کا حملہ ہوگا تو سب سے پہلے میں اور میرے ساتھی کھڑے ہوں گے، عدلیہ کے کام میں مداخلت ہم پسند نہیں کرتے، اگر کسی کا اور ایجنڈا ہے کہ میں ایساکروں یا ویسے کروں تو چیف جسٹس بن جائیں، ہم دباؤ نہیں لیں گے، ہم ایڈمنسٹریٹولی کام کر رہے ہیں، ہم نے ایگزیکٹو سے چھپ کر گھر میں میٹنگ نہیں کی، چیمبر میں میٹنگ نہیں کی، ہم نے ایڈمنسٹریٹو حیثیت میں میٹنگ کی، اس میں قانون میں فرق واضح ہے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ وفاقی حکومت نے انکوائری کیلئے کوئی اقدام خود نہیں اٹھایا تھا، سپریم کورٹ نے دو نام تجویزکیے تھے، ناصرالملک اور تصدق جیلانی کے، تصدق حسین جیلانی سے وزیرقانون لاہور میں ملے اوربتایا آپ کا نام آیا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہم نے چیمبریا گھر میں نہیں بلکہ سپریم کورٹ میں باقاعدہ میٹنگ کی، میٹنگ میں وزیراعظم بطور انتظامیہ بطور سربراہ مقننہ بیٹھے تھے، میٹنگ میں دوسری جانب عدلیہ کی انتظامیہ بیٹھی تھی۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا تصدق جیلانی نے کہا آپ ٹی او آر فائنل کر کے دیں تو جواب دوں گا، تصدق حسین جیلانی سے دوبارہ پوچھا گیا، پھر نام کا اعلان کیا گیا، حکومت نے درخواست کی تھی کمیشن کے لیے سپریم کورٹ نام دے، یہ تاثر پیدا ہوا کہ جیسے یہ وفاقی حکومت کا بنایا ہوا کمیشن ہے، جسٹس ریٹائرڈ تصدق جیلانی نے پوچھا کمیشن کو کون سی جگہ دی جائے گی، انہیں بتایا گیا کہ فیڈرل شریعت کورٹ کی بلڈنگ میں کمیشن کام کرے گا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا ہم نے ایسے نام تجویز کیے جن پر کم سے کم انگلی اٹھائی جائے، سوشل میڈیا پر ان کے متعلق عجیب عجیب باتیں ہوئیں، مجھے بڑی شرمندگی ہوئی، کسی مہذب معاشرے میں ایسی باتیں ہوتی ہیں، سمجھ نہیں آرہا ہم کس طرف جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسے ذاتی حملے ہوئے اور ایساماحول بنایاگیا تو کون شریف آدمی ایسی قومی سروس کریگا، سوشل میڈیا سے عجیب عجیب باتیں سابق چیف جسٹس کے بارے میں شروع کردی گئیں، مجھے شرمندگی ہو رہی تھی کہ ایک شریف آدمی جسے ہم نے کمیشن کیلئے نامزد کیا تھا اس پر حملے شروع ہوگئے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا میں جمہوریت پریقین رکھتاہوں، میں نے ہر موقع پر مشاورت کی ہے، کیا ہم نیفیصلہ کرلیا ہیکہ ہمیں اس ملک اور قوم کو برباد کرنا ہے، آئین کو پڑھنا ہم نے چھور دیا ہے، وزیراعظم ایڈمنسٹریٹر ہیڈ بھی ہیں اور ایک حد تک مقننہ کے بھی ہیڈ ہوتے ہیں۔
قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا جب سے چیف جسٹس بنا کہتاہوں اپنی آئینی حدود میں رہ کرکام کرنا چاہیے، ہمارے پاس آئین میں کمیشن بنانے کا اختیار نہیں ہے، کمیشن بنانے کا اختیارسرکارکاہے، ہم نے مشورہ کیا اور نام دیے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک شخص مرزا افتخار نیجسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف وی لاگ کیا اور قتل کی دھمکیاں دیں، عدالت میں معاملہ آیا اور ایف آئی اے کو انکوائری کی ہدایت کی گئی، ایف آئی اے نے اس میں سے دہشتگردی کی دفعات ختم کر دیں، قاضی فائز عیسی نے 161 کے بیان میں شہزاد اکبر کا نام لیا۔
منصور عثمان نے بتایا کہ قاضی فائز عیسی نے وزیراعظم کے مشیر داخلہ اور اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی کے ڈی جی سی فیض حمیدکا نام لیا، لیکن اس کے بعد معاملہ لٹکا دیا گیا اور اس دوران دو چیف جسٹس ریٹائر ہوگئے، اس خط کے بعد ایسا نہیں کیا گیا۔

مزید پڑھیں:  سب انسپکٹر عامر گاڑی کا چالان کرنے پر قتل، سپاہی زخمی