انکم ٹیکس کی شرح

تنخواہ دار طبقے کیلئے انکم ٹیکس کی شرح بڑھانے کی تجویز مسترد

ویب ڈیسک: وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کے لیے انکم ٹیکس کی شرح میں اضافے کی تجویز مسترد کردی گئی ہے ۔
ذرائع نے بتایا کہ نئے بجٹ کیلئے ٹیکس تجاویز کے متعلق گزشتہ اجلاس میں وزیراعظم نے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بوجھ بڑھانے کی شرط کی توثیق نہیں کی ۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے افراد کے لیے ٹیکس کی شرح کو معقول بنانے کیلیے تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار کی تفریق کو ختم کرنے اور سلیب کی تعداد کو چار سے کم کرنے کی سفارش کی ہے۔ اس نے زیادہ شرح والے سلیبس کے لیے آمدنی کی حد کم کرنے کو بھی کہا ہے۔
اگر آئی ایم ایف کی شرائط کو تسلیم کر لیا جائے اور حکومت تنخواہ دار افراد کی سب سے زیادہ قابل ٹیکس آمدنی کی حد کو کم کر کے تنخواہ دار اور کاروباری افراد پر ایک ہی آمدنی کی حد پر ٹیکس لگانا شروع کر دے تو 35 فیصد کی سب سے زیادہ ٹیکس کی شرح 3لاکھ 33 لاکھ روپے سے زائد کی ماہانہ آمدن پر لاگو ہوگی۔
اس وقت کاروباری افراد سے 3لاکھ 33 لاکھ روپے ماہانہ آمدنی پر 35 فیصد کی شرح پر ٹیکس وصول کیا جاتا ہے جبکہ تنخواہ دار افراد کی سب سے زیادہ ٹیکس کی شرح 5 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ سے زائد پر شروع ہوتی ہے۔
تنخواہ دار افراد کی پانچ ٹیکس بریکٹس ہیں جن کی شرح 2.5 فیصد، 12.5فیصد، 22.5 فیصد، 27.5 فیصد اور 35فیصد ہے۔ سب سے زیادہ ٹیکس بریکٹ وہ ہے جس کی سالانہ آمدنی 60 لاکھ روپے سے شروع ہوتی ہے۔
آئی ایم ایف نے انکم ٹیکس چھوٹ کی حد میں مزید نرمی کرنے کی بجائے اسے 50 ہزار روپے کی موجودہ شرح پر برقرار رکھنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ اس سے 51 ہزار روپے سے ایک لاکھ روپے ماہانہ تک کمانے والے نچلے، درمیانی آمدنی والے طبقوں پر منفی اثر پڑے گا جن کی قوت خرید میں مہنگائی کی وجہ سے نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے پنشنرز پر ٹیکس لگانے کا بھی ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ سرکاری سطح پر پنشن پر ٹیکس لگانے کے حق میں آوازیں اٹھ رہی ہیں لیکن پنشن کی حد پر ابھی تک اتفاق نہیں ہو سکا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم پنشنرز پر ٹیکس لگانے کے حق میں نہیں تھے۔
آئی ایم ایف مخصوص شعبوں میں ملازمین کو مراعات دینے کے لیے ترجیحی سلوک اور حصص میں سرمایہ کاری کے لیے ٹیکس کریڈٹ بھی ختم کرنا چاہتا ہے جبکہ مارگیج کی ادائیگیوں کے لیے ٹیکس کی شرح میں کمی کا فائدہ واپس لینے کی بھی سفارش کی ہے۔

مزید پڑھیں:  غیرقانونی اجتماع کی اجازت نہیں دی جائیگی:اسلام آباد ہائیکورٹ