توہین عدالت کیس، مصطفی کمال کی فوری معافی کی استدعا مسترد

ویب ڈیسک: چیف جسٹس قاضی فائزعیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے فیصل واوڈا اور مصطفی کمال کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔
اس موقع پر فیصل واوڈا اور کمال مصطفی پیش ہوئے۔
دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے کہ دوسرے آئینی ادارے پر تنقید کرنا اراکین پارلیمنٹ کا حق نہیں، مصطفی کمال سمجھتے ہیں کہ توہین عدالت نہیں کی تو معافی قبول نہیں کریں گے۔ جب مصطفی کمال نے توہین نہیں کی تو غیر مشروط معافی کیوں مانگ رہے ہیں؟۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا مصطفی کمال نے فیصل واوڈا سے متاثر ہوکر دوسرے روز پریس کانفرنس کی؟
اس موقع پر مصطفی کمال کے وکیل فروغ نسیم نے جواب دیا کہ یہ محض ایک اتفاق تھا۔ مصطفی کمال نے توہین نہیں کی بلکہ انہوں نے ربا کی اپیلوں کے تناظر میں بات کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ عدالت مصطفی کمال کی غیر مشروط معافی قبول کرتے ہوئے توہین عدالت کی کارروائی ختم کردے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جب توہین نہیں کی تو غیر مشروط معافی کیوں مانگ رہے ہیں، ربا کی اپیلیں کہاں زیر التوا ہیں؟
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پارلیمنٹ اور عدلیہ اپنے اپنے امور کی انجام دہی کریں، اراکین پارلیمنٹ کا حق نہیں کہ وہ دوسرے آئینی ادارے پر تنقید کریں۔

مزید پڑھیں:  ضلعی انتظامیہ ملاوٹ مافیا کےخلاف متحرک، 2ہزار لیٹر موبل آئل برآمد
مزید پڑھیں:  خیبرپختونخوا اسمبلی اجلاس 5 گھنتے تاخیر سے شروع، وزیراعلیٰ غیر حاضر ڈکلیئر

چیف جسٹس نے فیصل واوڈا سے کہا کہ آپ تو سینیٹر ہیں سینیٹ تو ایوان بالا ہوتا ہے، سینٹ میں زیادہ سلجھے ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی کہے کہ عدالتوں میں تاخیر سے فیصلے ہوتے ہیں تو منصفانہ تنقید ہے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ توہین نہیں کی تو غیر مشروط معافی کی بھی ضرورت نہیں ہمیں قائل کریں نوٹس واپس لیتے ہیں۔
بعد ازاں توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ نے ایم کیو ایم رہنما مصطفی کمال کی فوری معافی کی استدعا مسترد کرتے ہوئے پریس کانفرنس نشر کرنے والے ٹی وی چینلز کو بھی نوٹسز جاری کردیے۔