اشرافیہ نہیں استحصالیہ

مراعات یافتہ طبقہ یا اشرافیہ کی اصطلاح کا استعمال عام ہے اس کا مفہوم سادہ الفاظ میں یہ ہوسکتا ہے کہ عام آدمی سے ہٹ کر افرادکا وہ گروہ اور طبقہ جن کا سماجی سیاسی اور معاشی رتبہ عام شہریوں سے بڑھ کر ہے وہ اشرافیہ کہلاتے ہیں پاکستان میں اشرافیہ کا طبقہ کچھ زیادہ ہی وسعت اور اثر و نفوذ کا مالک ہے یہاں چلتی ہی اشرافیہ کی ہے اور رعایا یعنی عام آدمی وہ محروم وسائل حقوق بلکہ شرف انسانیت میں بھی ادھوری مخلوق ہے جس کی اشرافیہ کو پرواہ نہیں اشرافیہ کے ہئیت میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے اب تو خیر سے اہل صحافت بھی ا شرافیہ ہی سے کندھے سے کندھا ملا کر چلنے لگے ہیںمعلوم نہیں سابق نگران وزیر اعلیٰ پنجاب اور موجودہ وزیر داخلہ کو اہل صحافت اپنی صفوں میں سے مانتے ہیں یا نہیں لیکن بہرحال وہ انہی کے کوٹے پر ہی آئے ہوں گے قبل ازیں نجم سیٹھی سے لے کر ارشاد حقانی مرحوم تک صحافتی کوٹے ہی کے کھوٹے تھے سینیٹر عرفان صدیقی بھی صحافتی راہداری سے قلم کا استعمال کرتے کرتے کوچہ اقتدار میں آنکلے کوچہ اقتدار میں نہ بھی آئیں تو اب کتنے ہی صحافی صحافت کم اور سیاست زیادہ کرکے اشرافیہ کی صفوں میں خود کو شمارکرانے لگے ہیں ان کے تو ایک ٹکٹ میں دو مزے خود کو صحافی بھی کہلواتے ہیں اور سیاست بھی خوب کرتے ہیں چلیں چھوڑیں جمہوریت کے ان نئے ستونوں کی کہانیاں اب تو عام صحافی بھی اشرافیہ ہی کا رجحان رکھنے کے مزاج کا حامل بن گیا ہے کم سے کم پلاٹ مافیا سرکار سے مراعات و سہولیات اور ساتھ ہی ساتھ صحافت کی چسکے بازی بھی جب اہل صحافت اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقے کے قریب ہوجائیں تو عوام سے ان کی دوری فطری امر بن جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ صحافت زوال پذیر ہے صحافی خوشحال بننے کے چکر میں رہتا ہے چونکہ یہ طبقہ نیا نیا اشرافیہ کے نزدیک ہوا ہے اس لئے اس کاتذکرہ ضروری تھا باقی تو پہلے ہی سے ہیں اور ہر کسی کو ان کا علم بھی ہے پھر بھی یاد دلادیں کہ صنعت کار سیاستدان ، بیورو کریسی کاروباری طبقہ وغیرہ وغیرہ تو پہلے ہی مراعات یافتہ طبقے کی نمائندگی کرتے آئے ہیں وردی والوں کا تو ذکر ہی کیا وہ تو مالکان میں شمارہوتے ہیںجو اشرافیہ کے بھی سرپرست اور مربی ہیں یہ طبقہ مضر کس طرح ہے اور عام آدمی کو اس لفظ ہی سے نفرت کیوں ہے اس کی بنیادی وجہ مراعات یافتہ طبقے یا اشرافیہ کے ملکی وسائل اور اختیارات پر پوری طرح اجارہ داری اور اقتدار و ایوان و حکومت پر مسلسل قبضہ ہے کہنے کو تو یہ طبقہ دو فیصد ہی ہو مگر پارلیمان سے لے کر افسر شاہی تک قومی اداروں اور فوج کے اعلیٰ عہدوں پر نہ صرف نسل درنسل قابض چلا آرہا ہے بلکہ ان کی سیاسی و کاروباری اور صنعتی عملداری نے عوام کو مکڑی کے جالے کی طرح ایک استحصال اور ظلم پر مبنی نظام کے شکنجے میں ایسا گھیرا ہوا ہے کہ یہ گھیراتوڑ کر نکلنے کا نہ کوئی راستہ ہے اور نہ ہی وہ اس طرف کسی کوآ نے دیتے ہیں معاشرے کے مختلف طبقات کو ان عناصر نے ایسے مسائل میں الجھا رکھا ہے کہ اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں اگر ہے تو بہت مشکل اور دشوار گزار جس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے اور عوام قیمت دینے پر تیار ہی نہیں اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقے کی ملکی وسائل پر اجارہ داری خود غرضی ، مفاد پرستی اور سفارشی اٹھان نے اس ملک میں غریبوں کو اور زیادہ غربت کی پستی میں دھکیل دیا ہے یہ بات اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے این ڈی پی کی بھی ایک رپورٹ سے واضح ہے ۔رپورٹ کے مطابق مراعات یافتہ طبقہ دراصل استحصالی نظام کو سہار ا دیئے ہوئے ہے اور جب کبھی عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کو آتاہے تو یہ لوگ بم کے پھٹنے کے خوف سے عوام کے سامنے چند نمائشی اور وقتی اقدامات کرکے اسے پھر ٹھنڈا کر دیتے ہیں اور ہر بار عوام ان کے جھانسے میں آجاتی ہے اشرافیہ اورعوام میں بٹا یہ نظام دہائی دو دہائی کا نہیں بلکہ یہ صدیوں پرانا ہے مسلمانوں میں عوام اور خواص امراء اور غریب کی یہ طبقاتی تقسیم تو خلفائے راشدہ کی مثالی حکومت کے خاتمے سے ہی شروع ہوگئی تھی جس کے خاتمے کے بعد ہی اسلامی معاشرہ عوام اور خواص میں تقسیم ہوتا چلا گیا سوال یہ ہے کہ کیا ترقی یافتہ دنیامیں بھی عوام و خواص اور خدمات و مراعات کی تقسیم موجود ہے اس کا جواب قطعی صورت میں تو دینا مشکل ہے البتہ مختلف طبقات ہر معاشرے میں ہوتے ہیں تاہم ترقی یافتہ قوتوں کا وجود میں آنا ہی اس وقت شروع ہوا جب انہوں نے طبقاتی تقسیم کو کم سے کم سطح تک پہنچا دیا وہاں سرکاری عہدیداروں کو نہ تو غیر ضروری مراعات ملتی ہیں بلکہ وہ عوام کی خدمت اور فرائض منصبی کے حوالے جوابدہ ہوتے ہیں جن کی حتی المقدور کوشش عوامی خدمت ہوتی ہے وہاں قانون توڑنے کا بیورو کریسی اورسرکاری حکام سے لے کر وزیر ، مشیر یہاں تک کہ وزیر اعظم اور صدر بھی قانون شکنی کا سوچ بھی نہیں سکتے ۔ ہمارے غمخواروں اور خادمین دونوں کا یہ حال ہے کہ قانون ان کے گھر کی لونڈی اور عدالتوں کی کنجی ان کی جیبوں میں ہے یہ جب چاہتی ہیں عدالتیں اوقات کار کے بعد بھی فیصلے دینے کی خدمت کرتی ہیں سڑکیں ان کے قافلوں کے لئے خالی کرائی جاتی ہیں اور ہزاروں پولیس اہلکاروں کی ڈیوٹی لگا کر کوشش کی جاتی ہے کہ جہاں سے یہ گزریں عوام ان کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ سکیں المیہ یہ نہیں کہ پاکستان میں ایسا کیوں ہو رہا ہے ہوتا ہے بلکہ المیہ یہ ہے کہ یہاں کی عوام خود کو کمتر اور اشرافیہ کو خود ہی برتر مخلوق کا درجہ دیتی ہے اور عوام نے ذہنی طور پر اس تقسیم و تفاوت کو تسلیم کر لیا ہے اس طرح کی ذہنی غلامی تقریباً تقریباً لاعلاج اور ناممکن ہے اگر پاکستان کے عوام اپنے ملک کوترقی یافتہ ممالک کے ہم پلہ دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر عوام اور اشرافیہ کے درمیان عوام اور خواص کی تقسیم کی اس دیوار کوگرانا ہوگا اشرافیہ سے مراعات واپس لے کر عام آدمی کی حالت بہتر بنانے پروسائل کو صرف کرنی ہوگی غریبوں کی تعلیم و تربیت اور ترقی کے یکساں مواقع انصاف کی بلا امتیاز فرہمی اور بنیادی اساس کی بہتری پرخرچ کرنا ہوگا اس کیلئے عوام کو باشعور ہونا ہوگا اور یہ سمجھنا ہوگا کہ موجودہ نظام دراصل جمہوریت کے لبادے میں ایک ظالم اور استحصالی طبقہ کے مفادات کی محافظ ہے عوام کو اب اس امر کو سمجھنا ہوگا کہ اصلی جمہوری معاشرے میں عوام کے لئے قطار اور اشرافیہ کے لئے پچھلا دروازہ نہیں ہوتا بلکہ سب برابر ہوتے ہیں عوام کو اس کسوٹی پرعملی طور پر پورا اترنے والوں ہی کی حمایت کرنی ہو گی اور اشرافیہ کے نمائندوں کو پیچھے دھکیلنے کیلئے شعور اور عوامی قوت کا مظاہرہ کرنا ہوگا تب جا کر کہیں استحصالی معاشرے اور اشرافیہ کا سورج غروب ہونے لگے گا دوسری کوئی صورت نہیں اور بس۔

مزید پڑھیں:  قرض کی منظوری