صنعتی ،تجارتی شعبوں کی شکایات

نئے مالی سال کے بجٹ میں مختلف شعبوں خصوصاً صنعتی اور تجارتی حلقوں پر مختلف ٹیکسوں کو لاگو کرنے کیخلاف متعلقہ حلقوں نے ان ٹیکسوں کے نفاذ کیخلاف ایکا کرتے ہوئے نہ صرف وفاقی بجٹ کو مسترد کر دیا ہے بلکہ ملک بھر میں احتجاجی بینرز آویزاں کر دئیے ہیں تاجر برادری نے حکومت اور نیپرا کی جانب سے یکم جولائی سے بجلی صارفین کیلئے 300 سے 355 فیصد فکسڈ چارجز تک کے اضافے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ظلم اور ناروا بات یہ ہے کہ گھریلو صارفین سے بھی اب فکسڈ چارجز وصول کئے جائیں گے جو عوام کی زندگی کو مزید مشکل اور اجیرن بنا دے گا فکسڈ چارجز ناجائز اور بے تحاشہ اضافہ کو صنعتی تباہی اور صارفین کو زندہ درگور کرنے کے مترادف ہو گاخیبر پختونخوا کی تاجر برادری نے خبردار کیا ہے کہ اگر حکومت نے مذکورہ فیصلہ فوری طور پر واپس نہ لیا تو سرحد چیمبر اور بزنس کمیونٹی احتجاج پر مجبور ہوگی، گزشتہ کچھ عرصے سے حکومت دیگر شعبوں کے علاوہ یوٹیلٹی بلز، بجلی، گیس ،پٹرولیم کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کر کے عوام پر مہنگائی مسلط کرنے کی جس راہ پر گامزن ہے اس سے عوام کی مسلسل چیخیں نکل رہی ہیں ،بجلی کی قیمتوں میں ہر ماہ اضافے کے باعث زندگی کا ہر شعبہ بری طرح متاثر ہو رہا ہے، گھریلو صارفین کیلئے بلوں میں جو طریقہ کار اختیار کیا جا رہا ہے اس میں200 یونٹ بجلی کے نرخوں میں صرف ایک یونٹ اضافے یعنی 201 یونٹ کا ہندسہ آنے پر لگ بھگ پانچ ہزار روپے سے بھی زیادہ اضافہ بدترین ناانصافی کی زندہ مثال ہے جبکہ ایک بار200 کا ہندسہ کراس ہو جائے اور بھلے اگلے ہی مہینے خرچ 200 یونٹ سے بھی کم ہو جائے تب بھی آئندہ چھ ماہ تک وہی اضافی بل ادا کرنا لازمی ہو جاتا ہے حکومت نجانے کب کسی نکتے پر رکے گی یا پھر اس طرح کی وصولیوں کے نت نئے سلسلے جاری رہیں گے۔ اسی طرح اب فکسڈ چارجز لاگو کرنے سے خیبر پختونخوا میں پہلے ہی سے صنعتی شعبے کی بربادی مزید متاثر ہوگی، صنعتی ،تجارتی پہیہ رک جائے گا اور بے روزگاری میں مزید اضافہ ہوگا، اس صورتحال پر حکومت سے کسی رحمدلی کی توقع از خود ایک سوال ہے کیونکہ اس کے پاس تو آئی ایم ایف کے احکامات کی تعمیل کر کے عوام پر نت نئے ٹیکس لاگو کرنے کے سوا دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے، بہرحال اگر ملک بھر کے صنعتی تجارتی شعبوں نے احتجاج کا راستہ اختیار کیا ہے تو ممکن ہے کوئی بہتری کی صورت نکل ہی آئے۔

مزید پڑھیں:  کرم یا آتش فشاں؟