ابہام کا ماحول، منفی اثرات کا باعث بننے کا خدشہ

آپریشن عزم استحکام کے اعلان کے بعد اس حوالے سے مختلف آراء کا اظہار سامنے آرہا ہے ا بتداء میں ایک نئے آپریشن کا عندیہ دیا گیا تاہم مختلف قسم کے نرم و سخت ردعمل اور مزاحمت کے اعلان کے بعد وزیراعظم آفس کی جانب سے کہا گیا ہے کہ بڑے پیمانے پر کسی فوجی آپریشن پرغور نہیں کیا جا رہا ہے جس کے نتیجے میںماضی کی طرح آبادی کی نقل مکانی کی ضرورت ہوبلکہ عزمِ استحکام کا مقصد پہلے سے جاری انٹیلی جنس کی بنیاد پر مسلح کارروائیوں کو مزید متحرک کرنا ہے۔دریں اثناء وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کا کہنا ہے کہ ایپکس کمیٹی میں ایک نام عزم استحکام آیا لیکن آپریشن کا ذکر نہیں تھا۔دوسری جانب سینیٹر فیصل واوڈا نے آپریشن عزم استحکام کے حوالے سے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کے اظہار لاعلمی پر حیرت ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کو بریفنگ میں سب کچھ بتایا گیا ہے، اب وہ کہہ رہے ہیں کہ مجھے نام کا پتا ہے آپریشن کا نہیں پتا۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ یہ ایک توسیعی آپریشن ہے جو پہلے سے چلتا آرہا ہے، اس کا دائرہ کار وسیع ہوگا۔ یہ آپریشن کابینہ سے بھی منظور ہوگا، پارلیمنٹ سے بھی پاس ہوگا اگرچہ فیصل واوڈا عسکری و حکومتی ترجمان نہیں تاہم ان کے بیان کو اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے کے بیان کے طور پر دیکھنے کی گنجائش موجود ہے اس طرح کے بالواسطہ موقف کے اظہار کی حکمت صورتحال کا اندازہ لگانے کی سعی بھی ہو سکتی ہے بہرحال اس سے قطع نظر اسی حوالے سے خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان کاردعمل ہے کہ آپریشن عزم استحکام کے خدو خال اور طریقہ کار واضح ہونے تک اس کی حمایت نہیں کریں گے۔اسلام آباد میں مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا بیرسٹر سیف نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کے عزم استحکام آپریشن کے حوالے سے بیان سے کنفیوژن پیدا ہوئی ہے، عوام کو نہیں بتایا گیا کہ آپریشن کا طریقہ کار اور اس کی مدت کیا ہوگی؟ بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ عوام میں آپریشن کے حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے۔صوبے میں حکومتی طور پر ہی نہیں بلکہ صوبے کی فعال سیاسی جماعتوں جمعیت علماء اسلام ، عوامی نیشنل پارٹی اور جماعت اسلامی سمیت ملک کی مختلف جماعتوںکی جانب سے بھی ” آپریشن عزم استحکام ” کی مخالفت ہو رہی ہے اس حقیقت سے بہرحال انکارممکن نہیں کہ قومی طور پر اتفاق رائے اور عوام کی حمایت کسی بھی قسم کے آپریشن کی کامیابی کے لئے ضروری ہوتی ہے مرکزی حکومت کی جانب سے کسی کارروائی سے صوبائی حکومت ہی متفق نہ ہو سیاسی جماعتیں اورعوامی گروپس اس کی کھلم کھلا مخالفت کااعلان کریں پارلیمان میں اس پر اتفاق رائے کی صورت نہ نکل آئے تو حالات سازگار بنائے بغیر صحیح معنوں میں اہداف کا حصول کسی بڑی چیلنج سے کم نہ ہو گا بہرحال وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے آپریشن عزم استحکام کے آغاز کے اعلان کے بعد حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوںخاص طور پرہمارے صوبے خیبر پختونخوا کے سیاسی و عوامی حلقوں کی جانب سے شدید تحفظات کا اظہارسامنے آرہا ہے کہ دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرصوبہ رہا ہے بنا بریں ان جماعتوں کی طرف سے اٹھائے گئے خدشات پوری طرح قابل فہم ہیںمقامی آبادی کو آپریشنز اور نقل مکانی جیسا کہ اس سے پہلے ان خدشات پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے پی ایم آفس کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں، اس بات کا عندیہ دیا گیا ہے کہ کوئی بڑے پیمانے پر نقل مکانی نہیں ہو گی، اور تصور شدہ آپریشن بڑی حد تک تطہیری مشق ہو گی جس میں عسکریت پسند گروپوں کی ”باقیات”کا صفایا کیا جائے گادہشت گردی کے خطرے کو مزید طاقت حاصل کرنے سے پہلے اسے کچلنے کی ضرورت سے انکار کی گنجائش نہیں یہ حقیقت ہے کہ عسکریت پسند تقریباً ہر سابقہ فوجی آپریشن کے بعد دوبارہ منظم ہو چکے ہیں۔ لہٰذاعزم استحکام کو کامیاب بنانے کے لئے ماضی کی کارروائیوں کی خامیوں کا باریک بینی سے مطالعہ کرکے ان کا اعادہ کرنے سے گریز کی ضرورت ہے ایسا لگتا ہے کہ یہ نیا آپریشن جزوی طور پر پاکستان میں سکیورٹی کی ضرورت کے بارے میں چینی زبان کے خدشات کے تدارک کے لئے ضروری ہے بہرحال محرک کچھ بھی ہو دہشت گرد گروہوں کے خلاف واضح روک تھام کی کارروائی کی ضرورت ہے، لیکن متاثرہ علاقوں میں لوگوں کی زندگیوں کو نقصان پہنچانے اور بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا باعث بنے بغیراس عمل کو کر گزرا جائے تو اس کا جواز بنتا ہے لیکن دوسری جانب حکومت کو تمام اسٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لینا جاری رکھنا چاہئے، کیونکہ تمام سیاسی قوتوں کی رائے کے بغیر، متاثرہ آبادی کو آپریشن کی ضرورت پر قائل کرنا مشکل ہوگا۔ یہ سچ ہے کہ آپریشنل تفصیلات بتائی نہیں جا سکتیں۔ مزید برآں، پاکستان پچھلے کچھ سالوں میں دہشت گردانہ حملوں کی وجہ سے ناقابل قبول طور پر بڑی تعداد میں سیکورٹی اہلکاروںکی شہادتیں ہوئی ہیں یہ کوئی روایتی جنگ نہیں ہے، اور فوج کو عسکریت پسند گروپوں کی جانب سے استعمال کیے جانے والے غیر متناسب اقدامات کا مقابلہ کرنے کے لئے تربیت یافتہ خصوصی یونٹس بنانے پر غور کرنے کی ضرورت ہے جب تک ملک میں دہشت گرد گروہوں کے حمایتی ڈھانچے کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جاتا، یہ عناصر نئے ناموں کے ساتھ ابھر سکتے ہیں۔ عسکریت پسندی اور انتہا پسندی کے خلاف دوہری جنگیں لڑنا آسان تو نہیں لیکن یہ پاکستان کے لئے ضروری ہیں۔

مزید پڑھیں:  پپیتا، چقندر اور ڈینگی