سکینڈل کی تحقیقات کادائرہ کار وسیع کرنے کی ضرورت

ہمارے نمائندے کی خبر کے مطابق حکومت اس وقت ایک ایسے مالیاتی سکینڈل کی تحقیقات میں جتی ہوئی ہے جس میں3 محکموں کے نصف درجن سے زائد اہلکار و ں کی مبینہ ملی بھگت سے فرضی ملازمین کی ریٹائرمنٹ مراعات اورپنشن کی مدمیں کروڑوں روپے محکمہ خزانہ سے وصول کئے گئے ہیں۔جعلی و سفارشی بھرتیاں گھوسٹ ملازمین ملی بھگت سے کام پر گئے بغیر تنخواہ کی وصولی اور پنشن سکنڈل اب تو کسی انکشاف کے زمرے میں بھی نہیں آتا بلکہ معمول کا عمل سمجھا جانے لگا ہے ۔ اس طرح کے عناصر نہ صرف سرکاری خزانے میں ڈاکہ ڈالنے کا جرم کر رہے ہوتے ہیں بلکہ دوسروں کا بھی راستہ روک کر اور عوام کے لئے بھی مسلسل مشکلات کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں شاید ہی کوئی محکمہ اس طرح کے عناصر سے خالی ہو جامع تحقیقات ہوں تو مزید بڑے سکینڈل سامنے آنے کا امکان ہے مشکل امر یہ ہے کہ اس طرح کے عناصر کی چونکہ ملی بھگت اور رسائی حکومتی ایوانوں تک ہوتی ہے اور ان کے سرپرست ان کو ہر مشکل سے نکال لے جانے کی حامل شخصیات ہوتی ہیں اس لئے اس طرح کے واقعات میں ملوث عناصر کو سزا کے حوالے سے زیادہ پر امید ہونا حقیقت پسندانہ امر نہ ہو گا صوبائی حکومت نگران دور کے تقرریوں کے معاملات کی ضرور چھان بین کرے لیکن اپنے گزشتہ دو ادوار میں ہونے والی ملی بھگت کا بھی جائزہ لینے کا فیصلہ کرے محولہ سکینڈلز ممکنہ طور پر حکمران جماعت کی سابق حکومتوں ہی کا شاخسانہ نکلنا حیرت کی بات نہ ہو گی بہرحال جس دور حکومت میں بھی یہ سب کچھ ہوا ہو اس کی جامع تحقیقات اور سزا و ریکوری میں کوتاہی کی گنجائش نہیں توقع کی جانی چاہئے کہ حکومت اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھائے گی۔

مزید پڑھیں:  کرم یا آتش فشاں؟