مگر پتا تو چلے آستیں میں کیا کیا ہے؟

نقل کرنے میں ہماری قوم کا جواب نہیں ہے چند سال ادھر کی بات ہے ، بھارت میں کانگریس کے ایک بزرگ رہنما انا ہزارے ، جو خود کو گاندھی کا ساتھی کہتے تھے ملکی سیاست میں گاندھی جی کے نظریات کے احیاء کے لئے حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کا اعلان کرتے ہوئے بھوک ہڑتال سے ابتداء کی اور پھر پورے بھارت میں اپنی تحریک کو پھیلانے کے لئے عوام سے رابطہ شروع کرنے کو عملی جامہ پہنانا شروع کردیا ، ابتداء میں (جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے ) ان کا مذاق اڑایا گیا ، مگراتنی پیرانہ سالی کے باوجود ان کے عزم میں کمی نہیں آئی تولوگوں نے انہیں سنجیدگی کے ساتھ لیتے ہوئے ان کے قافلے میں شمولیت اختیارکرنا شروع کر دی یعنی بقول شاعر
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے رہے اور قافلہ بنتا گیا
انا ہزارے کا اندولن روز بروز مضبوط ہوتا چلا گیا اور وہ جہاں بھی پہنچتے لوگ انہیں ہاتھوں ہاتھ لیتے ، ان کے قافلے میں ایک اور شخص اروند کجریوال نے بھی سرکاری ملازمت کو خیر باد کہہ کر شمولیت اختیار کی ، اروند کجریوال کی تقرریوں نے عام غریب اور محروم بھارتیوں کے جذبات بھڑکانے میں اہم کردارادا کیا یہاں تک کہ انا ہزارے اور اروند کجریوال کے درمیان کچھ اختلافات پیدا ہو گئے یوں اروند نے انا ہزارے کی تحریک سے علیحدگی اختیار کرکے آنے والے چنائو میں بطور امیدوار نئی دہلی کے حلقے سے ریاستی (بھارت میں صوبوں کو ریاستیں کہا جاتا ہے ) انتخابات میں حصہ لیا اور ابتداء میں تو انہیں زیادہ کامیابی نہ مل سکی بلکہ ایک انتخابی حلقے میں ان کو جلوس نکالنے پر بی جے پی کے ایک کارکن نے پھول پہنانے کی آڑ میں تھپڑ رسید کئے مگرکجریوال کے عزم میں کوئی لرزش پیدا نہیں ہوئی اور بالآخر ایک نئی سیاسی جماعت بنانے میں کامیاب ہوگئے جس کا نام انہو ں نے ”عام عوام پارٹی” رکھا اور اس کے بعد کامیابی نے ان کے قدم چومتے ہوئے انہیں دہلی کے صوبائی حکومت کے تخت پر وزیر اعلیٰ کے طور پر منتخب کرنے میں کردارادا کیا اور انہوں نے اپنے وعدوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کردارادا کرتے ہوئے دوبارہ زیادہ اراکین کے ساتھ مضبوط وزیر اعلیٰ منتخب ہونے میں کامیابی حاصل کی یوں دہلی کے عوام نے ان پر اعتماد کرتے ہوئے کہا تھا کہ
آپ کے لہجے میں شفا ہے بہت
آپ میرے طبیب ہوجائیں
بات ہور ہی تھی عوام کے دلدر دور کرنے کے حوالے سے نئی پارٹی کے قیام کی ہمارے ہاں بھی اس قسم کے تجربات مختلف ادوار میں کئے جاتے رہے ہیں ، کہیں پرانی پارٹیوں کو توڑ کر ان کے اندر سے نئی جماعتیں برآمد کرنے کے تجربات تو کہیں ویسے ہی بعض پرانے گرو سیاستدان مل کر نئی جماعت تشکیل دے دیتے ہیں مثلاً پاکستان کی بانی جماعت مسلم لیگ تو متعدد بار اس قسم کے تجربات سے گزر چکی ہے ۔اس پر پہلا حملہ ایوبی آمریت کے دور میں ہوا جب خود ساختہ فیلڈ مارشل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کیا اور ”مارشل لائ” سے ان کا بھی دل بھر گیا تو انہوں نے ملک میں لولی لنگڑی جمہوریت(جسے انہوں نے بنیادی جمہوریت کے نظام کا نام دیا) قائم کرکے ایک پرانے مسلم لیگی خلیق الزمان کے ذریعے کنونشن بلوا کر لیگ کے دو ٹکڑے کرائے جن میں سے ایک بعد میں کونسل مسلم لیگ کہلایا جبکہ دوسرا دھڑا کنونشن مسلم لیگ کے نام سے مشہور ہوا کونسل لیگ میں کئی سینئر لیگی جن میں سردار شوکت حیات ، ممتاز دولتانہ وغیرہ شامل تھے ۔ ایوب خان کی کنونشن لیگ کی مخالفت میں ڈٹ گئے تھے ، ایوب خان کے ساتھ ملک کے مختلف علاقوں سے طالع آزما ، وقتی اور فصلی بٹیرے شامل ہوئے ان دنوں کا ایک بہت اہم واقعہ پشاور کے پرانے لیگیوں کے حوالے سے یہ ہوا کہ صوبہ سرحد کے ایک اہم لیگی رہنما نوابزادہ عبد الغفورخان ہوتی نے جو وفاقی وزیر تھے دس لاکھ روپے کی خطیر رقم (آج کے کروڑوں سے بھی زیادہ)لیکر کونسل مسلم لیگ کے ایک رہنماء سید مظہر گیلانی مرحوم کے گھر آئے اور انہیں کونسل لیگ چھوڑ کر کنونشن لیگ میں شامل ہونے کی پیشکش کرتے ہوئے مزید مراعات دینے کی بات کی تو سید مظہرگیلانی نے اپنی چھڑی (کھونٹی) کی طرف ا شارہ کرتے ہوئے کہا ، دس لاکھ روپے میں تو میں یہ کھونٹی بھی نہ بیچوں ،تم میرا ضمیر خریدنے آئے ہو؟بقول ڈاکٹر راحت اندوری
وہ چاہتا تھا کہ کاسہ خرید لے میرا
میں اس کے تاج کی قیمت لگاکے لوٹ آیا
اس پر نوابزادہ ہوتی اپنا سا منہ لے کر رہ گئے ، خیر آگے بڑھتے ہیں او رنئی پارٹیوں کی تشکیل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ کہیں پرانی جماعتوں کے نئے اتحاد نئے ناموں سے سامنے آئے اور کہیں کسی سیاسی رہنما ء نے بالکل ہی نئے نام سے جماعت تشکیل دی جیسے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کا قیام ایک بالکل ہی نیا تجربہ تھا ، اسی طرح ایئر مارشل اصغر خان کی جماعت تحریک استقلال بھی نئی جماعت تھی اور بھی بہت سی چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی تشکیل سیاسی تاریخ کا حصہ ہے تاہم جس قدر تقسیم در تقسیم مسلم لیگ کی ہوتی رہی ہے اتنے حصے بخرے کسی اور جماعت کے نہیں کئے گئے ، بھارت میں کانگریس کی اپنی حیثیت برقرار یوں رہی کہ اس کے نظریات شروع دن سے آج تک وہی ہیں ،قیادت ضرور تبدیل ہوتی رہی ہے اور نہرو خاندان کی مستقل اجارہ داری کبھی نہیں رہی ہاں زیادہ عرصہ پارٹی کی قیادت اسی خاندان کے پاس ضرور رہی ، مگر پارٹی نے گاندھی اور نہرو کے نظریات سے سرموانحراف نہیں کیا جبکہ پاکستان میں مسلم لیگ کے حوالے سے تو اس بھارتی فلمی نغمے پر ہی عمل ہوتا رہا یعنی
اس دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے
کوئی یہاں گرا ، کوئی وہاں گرا
اس پارٹی نے نہ صرف نام میں تبدیلیاں کیں کبھی کونسل اور کنونشن لیگ کبھی ایک اور دھڑا قیوم لیگ کے نام سے اپنی الگ ڈفلی بجاتا رہا ، پھر ضیاء الحق کے دور میں پارٹی معدوم ہو گئی کہ انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں کو منقار زیر پر کی کیفیت سے دو چارکرکے غیر جماعتی انتخابات کرائے اور پھر اسی اسمبلی کی کوکھ سے ایک نئی مسلم لیگ کا احیاء کراکے اسے حکومتی جماعت بنا دیا ، محمد خان جونیجو کی قیادت میں نہ صرف حکومت بلکہ ایک نئی نویلی مسلم لیگ کے قیام کے بعد جب خود ہی انہوں نے اسمبلی توڑی تو وہ مسلم لیگ بھی تقسیم ہو گئی ، ایک جانب میاں نواز شریف اور دوسری جانب دیگر لیگی قیادت تھی ، پھر یہ سلسلہ مزید آگے بڑھا اور اسی کی کوکھ سے چٹھہ گروپ برآمد ہوا ، پھر جنرل مشرف نے چوہدری برادران کی قیادت میں قاف لیگ بنائی ضیاء الحق کے برخوردار اعجاز الحق کہاں پیچھے رہنے والے تھے ، انہوں نے ضیاء گروپ تشکیل دی ، شیخ رشید بھی حالات کے مارے ہوئے اپنی موٹرسائیکل گروپ تشکیل دے کر شکار کے دھوئیں میں اپنے سیاسی مستقبل کوڈھونڈتے رہے اور اب مسلم لیگ کے نام سے تو نہیںالبتہ اروند کجریوال کی نقل کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل نے بھی عوام پاکستان پارٹی کے نام سے نئی جماعت بنا ڈالی ، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟۔
تمہارے ہاتھ کا گلدستہ آرہا ہے نظر
مگر پتا تو چلے آستیں میں کیا کیا ہے

مزید پڑھیں:  کرم یا آتش فشاں؟