آپریشن نہیں۔ سیاسی حل

آپریشن ضرب عضب ” آپریشن رد الفساد، آپریشن عزم استحکام،آپریشن جیسے یکے بعد دیگرے آپریشنزرکنے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔
پڑوس میں دیکھیں توبھارت میں تقریباً ایک درجن آزادی کی تحریکیں گذشتہ آدھی صدی سے چل رہی ہیں۔ لیکن بھارتی حکومت سوائے مقبوضہ کشمیر کے ہر جگہ پر مختلف حربوں اور روٹین سیکورٹی اقدامات کے ذریعے ایسی تحریکوں کو ایک حد تک کنٹرول میں رکھتی ہے ۔ ۔فوجی آپریشنوں سے نہیں۔کچھ بات چیت کے ذریعے ۔کچھ رشوت دے کر ،کچھ سیاسی گروئوں کو استعمال کرکے اور کچھ کو ٹارگیٹڈ آپریشنز کے ذریعے ٹھکانے لگا کر ۔ بنگلہ دیش کے چٹاگانگ ایریا میں مسلسل بغاوت اور فساد ۔لیکن سیاسی مہارت سے آراستہ حسینہ واجد انتظامیہ حکمت سے کام لے کر معاملات کو کنٹرول کئے ہوے ہے۔تاکہ فوج کے استعمال کی ضرورت کی نوبت نہ آئے۔ اور فوجی جوانوں کی قیمتی جانیں ضائع نہ ہوں۔ افغان طالبان نے اگست 2021 میں اقتدار میں آنے کے بعد شمالی اتحاد کے خلاف کوئی عزم استحکام لانچ نہیں کیا حالانکہ وہاں بہت ساری باتیں طالبان انتظامیہ کی مرضی کے خلاف ہو رہی ہیں۔لیکن طالبان کی کابل انتظامیہ مکمل فتح کی بجائے جزوی کنٹرول پر قانع رہ کر اپنے مسلمان بھائیوں کا خون بہانے سے گریز کر رہی ہے۔۔جس کا جواب بھی شمالی افغانستان کی طرف سے پھولوں سے دیا جا رہا ہے۔اور یہ طالبان انتظامیہ کی بہت بڑی کامیابی سمجھی جاتی ہے ۔ برصغیر پر انگریزوں نے دو سو سال حکومت کی۔ لیکن مختلف ریاستوں میں جزوی کنٹرول پر قانع رہ کر ۔ ریاستوں کو اندرونی آزادی ۔ ہندووں اور مسلمانوں کو اپنے اپنے مذاہب اور ثقافتی اقدار کے مطابق رہنے کی آزادی ۔ موجودہ بھارت میں کتنی ریاستوں کو اندرونی آزادی ہے۔کئی ریاستوں نے تو ہندی کو نکال کر مقامی زبانوں یا انگریزی زبان کو سرکاری زبان قرار دیا ہے۔ امریکی ریاستوں کو کتنی اندرونی آزادی حاصل ہے۔ایم ایم اے حکومت نے پختونخوا میں معاشرے کی اصلاح کے لئے کچھ اقدامات اٹھالئے۔تو ان کے چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس تک تبدیل کر دئے گئے پختون صوبے کو ساٹھ سال تک اپنا نام تک رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔بس صوبہ سرحد کا بے تکا نام تھا۔ ایسی تنگ نظر مقتدرہ تو دنیا کے دو سو ممالک میں سے کسی میں بھی نہیں۔
تاریخ کی روشنی میں بڑے بڑے گھمبیر مسائل کا حل یہ ہوتا ہے۔کہ وقت خرید لیا جائے۔ وقت بذات خود ایک بڑا مرہم ہوتا ہے۔ لوگوں کو انصاف دو ۔ساتھ ساتھ بولنے ‘ لکھنے اور چیخنے کی آزادی دو۔تاکہ ان کی کیتھارسس ہوتی رہے۔دل کا غبار نکلتا رہے۔البتہ حد پار کرنے والوں کو سیدھا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ایسا تو کسی ملک میں نہیں ہوتا کہ آئے دن اپنے قیمتی فوجیوں کا خون گلی کوچوں کے مخالفین کے خلاف جھڑپوں میں ضائع کیا جائے۔اور صرف اپنی انا کی تسکین یا امریکی سازشیوں کی خوشنودی کے لئے سارے اسلام پسندوں کو اپنی افواج کے ذریعے کچل دیا جائے ۔ہم خوش کہ امریکہ نے ہمیں مضبوط بنانے کے لئے اسلحہ دیا۔لیکن خاطر جمع رکھئے۔یہ اسلحہ بھارتی مشرکوں یا اسرائیلی صیہونیوں کے خلاف استعمال ہونے کے لئے نہیں۔بلکہ خطے میں اسلام پسندوں کو کچلنے کے لئے ‘ افغانستان اور ایران کو دبائے رکھنے کے لئے اور چین کا پھیلاو روکنے کے لئے ہے۔
بد قسمتی سے ہمارے اوپر حملہ آوروں کو بہت کامیابی کے ساتھ اسلام کے نام پر گمراہ کیا گیا ہے۔اس کا واحد اور مجرب جواب اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی روشنی میں مزید اسلامائزیشن ہے۔امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا سنجیدہ اور مربوط انتظام ۔ 1973 کے آئین میں پہلے ہی اس کی ہدایت کی گئی ہے۔کوئی نیا مطالبہ نہیں۔اس کے بعد ہی ہمارے علما کرام ان گمراہوں کو جواب دے سکیں گے۔کہ ہم اپنے اسلامی آئین کی روشنی میں ایک منظم طریقے سے بتدریج اسلامی نظام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔آپ کم از کم پچاس سال کے لئے پاکستان کو معاف ہی رکھیں تو بہتر ہے۔پچاس سال بعد دونوں مملکتوں میں سے جس اسلامی نظام کی شکل ذیادہ قابل عمل اور عوام اور ریاست کے حق میں ذیادہ مفید ہوئی۔اس پر سب اتفاق کر لیں گے۔اس دوران پاکستان کے اسلامی نظریاتی کونسل کے زیر انتظام دونوں طرف کے جید علما کے ماہانہ باہمی دوروں اور مسلسل مشاورت کا معقول میکینزم طے کیا جائے۔ خیالی دنیا کی خیالی نظام کے لئے کوئی بھی منظم ملک اپنا آئین اور اپنا جغرافیہ قربان نہیں کرسکتا۔
پچاس سال کچھ ذیادہ عرصہ نہیں ہے۔ یہ عرصہ پلک جھپکتے میں گزر جائے گا جہاں خلافت راشدہ کے چالیس سال کو چھوڑ کر پورے چودہ سو سال آمریتوں اور غیر اسلامی حکومتوں کے تحت گزرے ہیں وہاں یہ پچاس سال بھی گزر جائیں گے ہانگ کانگ پر برطانیہ اور چین کا پچاس سالہ معاہدہ اور ترکی اور اتحادی قوتوں کے درمیان سو سالہ معاہدہ لوزان اس کی واضح مثالیں ہیں۔
طالبان کے مختلف گروہوں اور دوسرے اسلام پسندوں کے لئے بھی ایک مشورہ ہے کہ پاکستان یا اس کے کچھ حصوں کے اوپر اپنی مرضی کا اسلام ڈنڈے کے زور سے نافذ کرنے کی بجائے پاکستان کے 1973 کے آئین کی روشنی میں اسلامی نظریاتی کونسل کے جید علما’ سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ کورٹ کے ممبران اور اداروں سے باہر کے علما مثلا شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی اور دوسرے مسالک کے علما کے ساتھ مل کر اسلامی نظام کے بتدریج نفاذ کے لئے مل کر کام کریں۔یاد رہے کہ اصلی اسلام والے خلفائے راشدہ کا نظام تو صرف چالیس سال رہا ہے۔باقی ادوار میں تو ملوکیت اور فساد رہا ہے ایرانی انقلاب بھی ایک مذہبی ڈکٹیٹرشپ ہی ثابت ہوا۔ جس میں بہت سارے علما بھی گھروں میں نظربند ہیں۔ ہمیں پھونک پھونک کر قدم بڑھانا چاہئے۔
آزادانہ موقع دیا جائے تو سیاسی قیادت پارلیمنٹ کی متعلقہ کمیٹیوں اور جرگوں کے ذریعے خطے کے ممالک اور متحارب گروہوں سے بات چیت کرکے مسائل کا حل نکال سکتی ہے ۔

مزید پڑھیں:  عصر حاضر ملک الموت ہے تیرا جس نے