چت بھی میری پٹ بھی میری

سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی اپیل منظور کرکے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلوں کو کالعدم قرار دیا اور کہا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ آئین کے خلاف ہے، انتخابی نشان کا نا ملنا کسی سیاسی جماعت کو انتخابات سے نہیں روکتا، پاکستان تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت تھی اور ہے اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا حکم بھی جاری کردیا ۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پاکستان تحریک انصاف قومی اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت بن کر ابھرے گی قومی اسمبلی میں اسوقت پی ٹی آئی کے آزادممبران کی تعداد 92ہے جنہیں میں 20خواتین اور چاراقلیتی نشستیں ملیں گی یوں مجموعی طور پر ایوان میں پی ٹی آئی کے ممبران کی تعداد116ہوجائے گی قومی اسمبلی میں دوسری بڑی پارٹی مسلم لیگ (ن) ہوگی جس کے ممبران کی تعداد108جبکہ پیپلز پارٹی کے ممبران کی تعداد 68 ہے ۔ وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کو سیاسی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ریلیف سنی اتحاد کونسل مانگنے گئی تھی لیکن عدالت نے پی ٹی آئی کو دے دیا۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں، حکومت کے پاس اب بھی 209 اراکین کی اکثریت ہے۔ ان کا کہنا تھا آج بھی وہ سینیٹرز جو سپریم کورٹ کے فیصلے سے آزاد ڈکلیئر ہوئے وہ آزاد ہی درج ہیں، آزاد اراکین نے بغیر رغبت اور اپنی منشاء سے کہا کہ وہ سنی اتحاد کونسل سے ہیں، آزاد اراکین نے خود لکھ کر دیا کہ وہ آزاد حیثیت میں منتخب ہوئے اور سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوتے ہیں۔ذرائع الیکشن کمیشن کے مطابق سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل اپیل میں گئی،سنی اتحاد کونسل کی یہ اپیل مسترد کردی گئی۔ ذرائع الیکشن کمیشن نے کہاکہ پی ٹی آئی نہ تو الیکشن کمیشن میں فریق تھی نہ ہی پشاور ہائیکورٹ کے سامنے فریق تھی،پی ٹی آئی سپریم کورٹ میں بھی فریق نہیں تھی۔ ذرائع الیکشن کمیشن کے مطابق پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دیناسمجھ سے بالاتر ہے۔دریں اثناء مقتدرہ کے قریب سمجھے جانے والے سابق وفاقی وزیر و سینیٹر نے دعویٰ کیا ہے کہ اس فیصلہ کے 15دن بعد پی ٹی آئی میں فارورڈ بلاک بنے گا ۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگی محولہ تمام عوامل سے قطع نظراکثریتی فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو نہ صرف قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ایک قانونی سیاسی جماعت کے طور پر بحال کیا جائے گا بلکہ وہ اقلیتوں اور خواتین کے لیے مخصوص نشستوں کے بڑے حصے کا دعوی کرنے کے قابل بھی ہو جائے گی اور اس طرح اپنی پوزیشن مضبوط کر سکے گی۔عدالتی فیصلہ ایک قانونی معاملہ ہے اور قوانین پرکس حد تک عمل کیا گیا اور یہ فیصلہ کس قدر سیاسی اثرات کا حامل ہے اس پر نہ صرف بحث ہوتی رہے گی بلکہ اس کے اثرات بھی سامنے آتے رہیں گے خود عدالت ہی کے ایک فیصلے سے ایک مخصوص قسم کا سیاسی فائدہ اور دوسری جماعت کو نقصان اور پھر عدالت ہی کے دوسرے فیصلے سے پہلے فیصلے سے تقویت حاصل کردہ سیاسی جماعت و حکومت کو دھچکا ملکی حالات اور معاملات کے حوالے سے یہ کوئی نیک شگون نہیں قانونی معاملات سے قطع نظر اس فیصلے کی چند لفظوں میں تشریح کی جائے تو بادی النظر میں یہ چت بھی میری پٹ بھی میری ہی کے زمرے میں نظر آتا ہے13 جنوری کے فیصلے میں سونامی کا راستہ روکا گیا ارو اب کے فیصلے میں حکومت کی کمر جھک گئی یوں سیاسی جماعتیں متاثرہ ہی ہوئیں اور بالادستی کی روک ہوئی پاکستان تحریک انصاف کو اس فیصلے سے تقویت ملنا فطری امر ضرور ہے لیکن اس کے باوجود منفی عمران خان تحریک انصاف حکومت اور حزب اختلاف دونوں ہی صورتوں میں منقسم اور منتشر رہے گی فاروڈ بلاک کی پیشگوئی میں اس لئے صداقت نظر آتا ہے کہ پی ٹی آئی کے ستائیں اراکین کے حوالے سے پہلے ہی سے تاثر ہے کہ ان کے خیالات اور پارٹی کی جیل سے باہر کی قیادت میں ہم آہنگی نہیںیوں سیاست پر اس فیصلے کے ممکنہ اثرات حکومت کو بھی مزید اپاہج کرنے کا باعث بن سکتی ہے اور تحریک انصاف کی عمران خان کو رہا کرائے بغیر اراکین کی تعداد میں اضافہ ہونے کے باوجودبھی جدوجہد ختم نہیں ہو گی سیاست میں مداخلت خواہ جس جانب سے بھی ہو بالاخر اس سے رجوع کرنے کی ضرورت پڑتی ہے مگر غلطی کے ازالے کے باوجود اس کے اثرات سے پڑنے والی پرچھائیوں کا مداوا ممکن نہیں ہوتا اس مرتبہ کا معاملہ بھی اسی کا اعادہ ہی کہلائے گا۔

مزید پڑھیں:  مودی کی ہوائی یاترا اور پاک بھارت تعلقات