ظاہر میں کیا کہو ہو ، سخن زیر لب ہے کیا؟

ڈوبنے میں کوئی کسر تو شاید نہیں رہ گئی تاہم ابھی مرے نہیں ہیں کہ موت اور زندگی تو خالق کائنات کے اختیار میں ہے ، ہماری یہ بات سمجھنے کے لئے آپ کو وزیر اعظم شہباز شریف کے گزشتہ روز کے اس بیان پر غور کرنا پڑے گا جو انہوں نے بلوچستان کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے دیا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس دوبارہ گئے تو ڈوب مرنے کا مقام ہوگا ، یاد رہے کہ چند روز پہلے وزیر اعظم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی یہ آخری باری ہے ، اب یہ کس برتے پر انہوں نے فرمایا تھا یعنی یا تو ان کے ہاتھ الہ دین کا چراغ لگ گیا ہے جسے رگڑنے سے جن برآمد ہو کر کہے گا ”میرے آقا ، کیا حکم ہے؟” اور وزیر اعظم جھٹ سے حکم صادر کردیں گے کہ ”پاکستان میں دولت کے انبار لگا دو ‘ ڈالروں کے پہاڑ جما دو تاکہ نہ صرف آئی ایم ایف سے جان چھوٹ جائے بلکہ ملک میں خوشحالی آجائے”۔ اس پرممکن ہے چراغ کا جن سر نیچے کرکے بے بسی کی صورت میں کہیں یہ نہ کہہ دے کہ ”میرے آقا” آنے والی تھان پر واپس آجائیں آئی ایم ایف کا مقابلہ مجھ سے نہیں ہو سکے گا”۔اسی لئے تو ہم نے گزارش کی اسی آئی ایم ایف کے ہاتھوں ہم ڈوب تو چکے ہیں کیونکہ ہم ایک عرصے سے اسی عطار کے لڑکے سے دوا لینے کی”مرض” میں مبتلا ہیں جس کی وجہ سے ہماری ساری بیماری ایک مستقل روگ کی صورت چمٹی ہوئی ہے ، اور اس کا کام ہمیں ”شدید سردی اور بارش کے موسم میں” نہلانا عادت ثانیہ بن چکی ہے اور ہم اس سردار جی کے ہاتھ میں اس بلی کی مانند(آئی ایم ایف کے قبضہ قدرت میں پھنسے ہوئے) ہیں جو ہمارے ساتھ وہی سلوک روا رکھے ہوئے ے تو اب ہمارے مرنے میں صرف آخری حربہ”نچوڑنا” ہی رہ گیا ہے جبکہ اس ”نچوڑنے ”میں آئی ایم ایف کے ہاتھوں میں ”مردہ بدست زندہ”کی صورت ہمارے وہ ادارے مددگار ہیں جن کے ایک اہلکار کے حوالے سے ایک لطیفہ بھی مشہور ہے کہ ایک پہلوان نما شخص نے ایک لیموں سے رس نکال کر چیلنج دیا کہ ہے کوئی جو اسی طرح لیموں سے اتنا ہی رس نکال کر دکھادے ؟ اس پرایک دھان پان ، دبلا پتلا ، کمزور شخص آگے بڑھااورتازہ لیموں کی بجائے اسی پہلوان کے نچوڑے ہوئے لیموں سے پہلے سے بھی زیادہ رس نکال کر سب کو حیرت زدہ کر دیا ، کسی نے پوچھا یہ کیسے ممکن ہوا؟ تو اس نے فخریہ، مونچھوں کو تائو دیتے ہوئے کہا میں ٹیکس کے محکمے ایف بی آر سے تعلق رکھتا ہوں یعنی بقول شاعر
وہ آئینے کوبھی حیرت میں ڈال دیتا ہے
کسی کسی کو خدا یہ کمال دیتا ہے
اب یہ کمال تو ہمارے ہاں ایف بی آر کو ہی حاصل ہے جو عالمی مہاجن آئی ایم ایف کے اشاروں کو بہت اچھی سمجھ لیتا ہے اور ایسے ایسے کمال دکھاتا ہے کہ فارسی کے اس مقولے کاقائل ہوئے بنا نہیں رہا جا سکتا کہ کسب کمال کن کہ عزیزجہاں شوی ، اب یہی دیکھ لیں کہ گیس اور بجلی کے بلوں کو سلیب سسٹم سے آشنا کرکے ایک سلیب سے دوسرے میں داخل ہونے کے لئے صرف ایک ہندسے کی ضرورت ہوتی ہے ، اور بے چارے صارفین ” ایک نقطے سے محرم سے مجرم بن کر ہزاروں روپے اضافی ادا کرنے پر مجبور کر دیئے جاتے ہیں
ہم دُعا لکھتے رہے اور وہ دغا پڑھتے رہے
ایک نقطے نے ہمیں محرم سے مجرم کر دیا
ان دنوں سوشل میڈیا پر ایک حکمران کا وہ وعدہ یاد دلایا جارہا ہے جس کے الفاظ کچھ یوں تھے کہ برسر اقتدار آکر عوام کو تین سو یونٹ تک بجلی مفت دی جائے گی ، اب لوگ تو یاد دلا رہے ہیں مگر معاملہ بالکل برعکس ہے کہ اب سویونٹ پر بھی ٹیکس لگانے کی خبریں ہیں جبکہ دوسوتک وہ جو پروٹیکٹڈ صارفین کے زمرے میں شمار ہوتے تھے اب ان کو بھی صرف ایک یونٹ اضافے سے نان پروٹیکٹڈ کی صفوں میں دھکیل دیا گیا ہے جو اگلے چھ مہینے تک پانچ ہزار روپے اضافی بلوں سے ”مستفید” ہوتے رہیں گے خواہ اگلے مہینوں میں ان کی بجلی کے یونٹ دوسو سے کم ہی کیوں نہ آئیں ،جبکہ اگلے چھ ماہ میں تو سردی کے تین مہینے بھی شامل ہوں گے جب ہر شخص کے استعمال شدہ یونٹس میں بتدریج کمی بھی آتی جائے گی اور اس حوالے سے تازہ خبروں کے مطابق اووربلنگ کے لئے ذمہ داری وزارت توانائی کے ذمے لگا دی گئی ہے جس سے واضح ہو گیا ہے کہ یہ جو دو سو سے کم یونٹ بجلی خرچ کرنے والوں کے بلوں میں اضافی یونٹ ڈالے جارہے ہیں ان کے لئے ”اوپر” سے ہدایات جاری کی گئی ہیں کیا اس کے بعد وزیر توانائی کو مستعفی نہیںہونا چاہئے جن کے اپنے ہی محل نما گھر جو فورٹ سنڈیمن میں واقع ہے کا جو بل سوشل میڈیا پر وائرل ہوا ہے اس پر حیرت کے اظہار کے سوا کیا کیا جا سکتا ہے ۔ بقول میر تقی میر
کیوں کر تمہاری بات کرے کوئی اعتبار
ظاہر میں کیا کہو ہو ، سخن زیر لب ہے کیا؟
سوشل میڈیا پر چین کے ایک پہاڑی علاقے کی ایک تصویر وائرل ہوئی ہے جس میں وہاں کے انجینئرز نے پورے پہاڑ کو سولر پینلز سے ڈھک دیا ہے حالانکہ(بقیہ 01صفحہ6پر)
چین میں دیگر ذرائع سے بجلی کی پیداوار کسی بھی طور کم نہیں ہے یعنی بے شمار بڑے بڑے اور چھوٹے ڈیمز سے پن بجلی ، ایٹمی بجلی گھروں سے بھر پور استفادہ ، کوئلے ، گیس او فرنس آئل سے بجلی ، ونڈ سسٹم اور سولر سسٹم سے مقامی سطح پر چھوٹے علاقوں کو مہیا کی جانے والی توانائی ، جس کے نتیجے میں وہاں صنعتوں کو بجلی مفت فراہم کی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ دنیا بھر میں صنعتی انقلاب میں سب سے آگے جارہا ہے ، مگر ہمارے ہاں اس شعبے میں بھی مختلف طریقوں سے رکاوٹیں ڈالنے کو”ترجیح” دی جارہی ہے ، شنید ہے کہ یہ سب کچھ انہی آئی پی پیز کے دبائو کا نتیجہ ہے جو معاہدوں کے تحت مطلوبہ بجلی پیدا کریں یا نہ کریں مگر ادائیگی انہیں پوری کی جاتی ہے اب اگر ملک میں سولر سسٹم کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے تو عوام کو اس سے یک گو نہ ریلیف ملے گا مگر جوبجلی(کم مقدار میں بنتی ہے) اسے زبردستی عوام کو مہنگے داموں فروخت کرکے بے پناہ ٹیکس سمیت زیادہ قیمت ادا کرنے پر مجبور کرنا ہی تو آئی پی پیز کے لئے تجوریاں بھرنے کے مواقع بہم پہنچانا ہے اس لئے سولر سسٹم کی مخالفت بھی کی جارہی ہے اور دوسری جانب پنجاب حکومت عوام کو قسطوں کے ذریعے سولر سسٹم فراہم کرنے کی منصوبہ بندی بھی کر رہی ہے ، کیا خیبر پختونخوا کے غریب عوام کو قسطوں میں سولر سسٹم کی فراہمی کا بھی منصوبہ نیہں بنایا جا سکتا؟ بقول داغ دہلوی
کس کا یقین کیجئے ، کس کا یقیں نہ کیجئے
لائے ہیں اس کی بزم سے ، یار خبر الگ الگ
حالانکہ سولر سسٹم کے بعد جو ریگولر بجلی بچ جائے گی وہ ضائع تو نہیں جائے گی بلکہ صنعتی اور زرعی شعبوں کے کام آئے گی ، مگر بقول منیر نیازی
خواب ہوتے ہیں دیکھنے کے لئے
ان میں جاکر مگر رہا نہ کرو

مزید پڑھیں:  تاجر دوست سکیم ، متضاد رویئے؟
مزید پڑھیں:  مرے کو مارے شاہ مدار

شباب