حج کس پر فرض ہے؟

سوال
اگر ایک گھر میں کمانے والا بیٹاہو اور گھر کی سر پرستی باپ کے ذمہ ہو تو اس صورتِ حال میں حج سب سے پہلے کس کے اُوپر فرض ہے‎؟
جواب
حج اس عاقل بالغ مسلمان پر فرض ہوتاہے جس کے پاس زندگی کی بنیادی ضروریات کے اخراجات، نیز اہل وعیال کے واجبی خرچے پورے کرنے کے بعد اس قدر زائد رقم ہو جس سے حج کےضروری اخراجات (آمد و رفت اور وہاں کے قیام وطعام وغیرہ) پورے ہوسکتے ہوں۔ لہذا مذکوہ صورت میں اگر بیٹے کی ملکیت میں اتنی رقم موجود ہو، والد فقط سرپرست ہوں ان کی ملکیت میں اتنی مقدار میں رقم موجود نہ ہو تو صرف بیٹے پر حج فرض ہوگا۔اور اگر بیٹا اپنی کل رقم والد کو مالک بناکر ان کے قبضے میں دے دیتاہو، اپنی ملکیت میں کوئی رقم نہ رکھتا ہو یا بقدرِ ضرورت رکھتاہو، اور ماقبل تفصیل کے مطابق اس کے پاس رقم نہ ہو تو والد کی ملکیت میں اگر مذکورہ مقدار کے برابر رقم جمع ہوتو ان پر حج فرض ہوگا۔
یہاں یہ بھی یاد رہے کہ جو بھی آدمی صاحبِ استطاعت ہو، یعنی سفرِ حج کی آمد و رفت کے اخراجات اور دورانِ سفر اپنے اور اہل وعیال کے نفقے کا انتظام ہو، اس پر حج کرنا فرض ہے اور حج کی فرضیت میں اولاد یا والدین ایک دوسرے کے تابع نہیں ہیں، یعنی اولاد صاحبِ استطاعت ہو اور والدین نہ ہوں تو والدین پر حج فرض نہیں ہوگا، بلکہ اولاد پر فرض ہوگا، اسی طرح اگر والدین صاحبِ استطاعت ہوں اور اولاد نہ ہوں تو اولاد پر حج فرض نہیں ہوگا۔حاصل یہ ہے کہ جو صاحبِ استطاعت ہے، اس کے ذمہ خود حج کرنا فرض ہے۔
"ہدایہ” میں ہے:
"الحج واجب علی الأحرار البالغین العقلاء الأصحاء إذا قدروا على الزاد والراحلة فاضلاً عن المسکن، وما لا بد منه، وعن نفقة عیاله إلى حین عوده، وكان الطریق آمناً ووصفه الوجوب”.
(الهداية، كتاب الحج، (1/249) ط: مكتبة رحمانية، لاهور)
فقط والله أعلم
______________
فتوی نمبر : 144106200734
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

مزید پڑھیں:  نئےاسلامی سال کی دعا