پھلوں کی دکان پرسجے چھلکے

اس سال ایم ڈی کیٹ کے امتحانات میں صوبہ بھر کے تعلیمی اداروں کے ایک ایک زیادہ سے زیادہ دو دو طالب عملوں کا اعلیٰ نمبر لینے اور سرکاری تعلیمی اداروں کے طلبہ کے 42 فیصد کانمایاں پوزیشن لینے کاخوش آئند عمل عدم شفافیت کے اعتراضات کے باوجوداطمینان کاحامل امر ہے جس سے اس عمل کی شفافیت پر اطمینان کا اظہار کرنا زیادہ موزوں امر ہوگا۔ ان نتائج نے ان ٹکسالی تعلیمی اداروں کا پول کھول دیا ہے جس میں داخلہ ہی کامیابی کی ضمانت بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے ہمارے نمائندے کے مطابق میڈیکل اور ڈینٹل کالجز میں داخلے کیلئے سکولوں اور تعلیمی بورڈز کے زیادہ تر ٹاپ پوزیشن ہولڈر طلبہ بھی فیل ہو گئے ہیں اس سلسلے میں بتایا گیا ہے کہ ایف ایس سی میں ٹاپ پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ بھی ایم ڈی کیٹ میں فیل ہو گئے ہیں۔ گزشتہ تعلیمی سال کے دوران صوبے کے آٹھ تعلیمی بورڈز میں ٹاپ پوزیشن حاصل کرنے والے بیشتر طلبہ کا انٹری ٹیسٹ کے نتائج میں نام ہی نہیں اور گزشتہ روز کے نتائج میں انہیں فیل ظاہر کیا گیا ہے ٹیسٹ میں 41 ہزار سے زائد طلبہ نے حصہ لیا تھا جن میں سے سرکاری سکولوں کے 42فیصد طلبہ نمایاں پوزیشن میں کامیاب ہوئے ہیں لیکن ان کامیاب امیدواروں میں سے ایک نے بھی ایف ایس سی میں ٹاپ نہیں کیا ہے بلکہ درمیانے اوسط نمبرز کے ساتھ پاس ہوئے ہیںاس ساری تفصیل کے بعد اس نتیجے پر پہنچنا مشکل نہیں کہ معروف سکولز ایک خاص ماحول بنا کر طلبہ اور والدین کو متوجہ کرکے ان کا استحصال کرتے ہیں جن کی حقیقت بہرحال پیشہ ورانہ کالجوں میں داخلوں کے وقت تو سامنے آتی ہے مگر بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے والدین اور طلبہ کو اگر یہ یقین آجائے کہ شفافیت اور پرچوں کی درست جانچ پڑتال ہوتی ہے اور محنت ہی سے کامیابی ملتی ہے تو ٹکسال بند ہو جائیں اور طلبہ و والدین کو ریلیف ملے توقع کی جانی چاہئے کہ اس سال کے نتائج چشم کشا ہونے چاہئیں اور اس سے ایک خاص قسم کے تاثر کی نفی ہونے کے ساتھ بہت سی غلط فہمیوں اور خوش گمانیوں کاخاتمہ ہونا چاہئے۔جس کے بعد طلبہ کو محنت کی متوجہ ہوناچاہئے اور والدین کو سکولوں کی شہرت سے متاثر ہونے کی بجائے اپنے بچوں کی صلاحیتوں پر اعتماد کرنا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  تاریخ خود کو دہراتی رہتی ہے