کرم یا آتش فشاں؟

وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے کہا کہ کرم میں تنازعہ فرقہ وارانہ نہیں بلکہ یہ مسئلہ اراضی کا ہے، جرگہ کوششوں سے فائر بندی ہوگئی ہے خیبر میں بھی تنازعہ ہے جس کے حل ہونے کی امید ہے۔امر واقع یہ ہے کہ صوبے یمں اور خاص طور پر کرم کے علاقے میں ہر کچھ عرصے بعد خونریز تصادم شروع ہوتا ہے خاص طور پر ضلع کرم میں علاقائی تنازعات، قبائلی اختلافات اور فرقہ وارانہ کشیدگی کے مرکب نے قبائلی علاقے کو ایک آتش فشاں میں تبدیل کردیا ہے مختلف قبائل کے درمیان زمینی تنازعات بطورخاص کشیدگی کا سبب بنتے آرہے ہیں۔ دشمنی کا موجودہ دور اس وقت شروع ہوا جب ایک قبیلے نے بظاہر دوسرے قبیلے کے علاقے میں بنکرز بنانا شروع کر دئیے۔ یہ طویل عرصے سے جاری تنازعات اکثر فرقہ وارانہ رنگ اختیار کر لیتے ہیں، نفرت پھیلانے والے سوشل میڈیا پر شعلے بھڑکاتے ہیں، اور ہر طرف سے بھاری ہتھیاروں کی موجودگی کے نتیجے میں بڑی خونریزی شروع ہوجاتی ہے۔ تازہ ترین دشمنی کے باعث اہم سڑکیں بند ہیں جبکہ تعلیمی سرگرمیاں بھی معطل ہیں۔کرم تشدد کی اصل حقیقت یہ ہے کہ ریاست کشیدگی کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ تشدد کے پھوٹ پڑنے کے بعد، انتظامیہ ردعمل کے لئے متحرک ضرور ہے، جس میں اکثر جرگوں کو فعال کرنا شامل ہوتا ہے، تاکہ درجہ حرارت کو کم کیا جا سکے۔ اگرچہ اس کے نتیجے میں دشمنی کا عارضی خاتمہ ہوتا ہے، لیکن خونریزی جلد ہی دوبارہ شروع ہو جاتی ہے کیونکہ تنازعات کی بنیادی وجوہات کو حل نہیں کیا جاتازمین کے تنازعات کو انصاف کے ساتھ حل کرنے کی ضرورت ہے مزید یہ کہ علاقے کو بھاری ہتھیاروں کی موجودگی سے پاک کرنا بھی ضروری ہے جہاں تک سوشل میڈیا پر نفرت انگیز تقریر کا تعلق ہے، فرقہ وارانہ مواد کو آن لائن پھیلانے میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہئے تاکہ اس خطرناک اور انتہائی غیر ذمہ دارانہ سرگرمی کو روکا جا سکے۔ مقامی قبائلی رہنمائوں اور علمائے کرام کو بھی کشیدگی کو کم کرنے اور ہم آہنگی کو فروغ دینے میں زیادہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں:  تجاوزات کی سرپرستی