پپیتا، چقندر اور ڈینگی

چند ہفتے قبل میرا کالم ”ڈینگی اور احتیاط” پڑھنے کے بعد مجھے قارئین کی طرف سے سوالات موسول ہوئے ہیں کہ علاج کے بارے میں بھی بتائیں ۔ ان سطور میں کسی بھی بیماری کے بارے میں نہ تو مکمل لکھاجاسکتاہے اور نہ ہی لکھنا مناسب ہے۔ تاہم میرافرض ہے کہ قارئین کو بنیادی آگاہی ضرور دے دی جائے ۔ میری اپنے قارعین سے درخواست ہے کہ ڈینگی کا ٹیسٹ ضرور کروائیں اور اگر ٹیسٹ مثبت آجائے تو کسی قسم کے گھریلوٹوٹکے ، نیم حکیم یا بڑے بوڑھے کے فارمولے ہر گزہرگز نہ استعمال کریں ۔ ٹیسٹ کے مثبت آجانے کے بعد کسی بھی ہسپتال کے مستند ڈاکٹر کے مشورہ پر عمل کریں۔ میں یہاں یہ بات پوری ذمہ داری کے ساتھ لکھ رہاہوں کہ کسی بھی سرکاری ہسپتال چلے جائیں تو سب سے بہتر ہوگا۔ جی ہاں سرکاری ہسپتالوں میں اس قسم کی امراض کا علاج بہت بہتر طریقے سے ہورہاہے۔ میرے کہنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ نجی ہسپتال نہیں جانا چاہئے لیکن فوقیت سرکاری کو دی جائے تو بہت اچھے نتائج آسکتے ہیں اور نسبتاکم خرچ اور کم وقت میں بہتر علاج ممکن ہوسکتاہے۔
میری طرح آپ بخوبی آگاہ ہیں کہ انڈیا اور پاکستان میں جب جب اس قسم کی وبائی امراض آئی تو لوگوں کا گھریلوٹوٹکوپر زیادہ انحصار ہوجاتاہے اس کی تازہ مثال کرونا کی ہے کہ ان دنوں لوگوں نے کرونا کی احتیاطوں کی بجائے گھریلو ٹوٹکے اور نیم حکیموں کے نسخوں پرایمان زیادہ ہوگیا۔ پاکستان کے ساتھ ساتھ انڈیا میں گائو موتر (گائے کا پیشاب ) تک کو ٹوٹکے کے طور پر استعمال کیا گیا اور ہمارے یہاں شف والے بابے پر انخصار ہوگیا۔ یوں ان ڈھونگی بابوں کی چاندی ہوگئی ۔ گائوں اور شہر دونوں میں یکساں بلکہ یہ بھی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ پڑھے لکھے اور ان پڑھ دونوں نیم حکیم یاگھریلو ٹوٹکوں کی اندھا دھند پیروی کرتے ہیں ۔ ہر گلی میں ایک سیانا ضرور ہوتاہے اور عام طور پر ہر کوئی مشورہ دے رہاہوتاہے کہ کوئی علاج مت کروائو اور بس پپیتا کھائیں (یہ پھل عموما کراچی سے آتاہے اس لئے مہنگاملتاہے) تاہم ہمارے تاجر برادران بھی مانگ بڑھ جانے کی صورت میں اور پھر چھابڑی والے اپنے من مانے دام لگاکر اس پھل کی قیمت دگنی چوگنی بلکہ کئی بار سوگنی لگاکر بیچ رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح شلجم کی طرح کی سبزی چقندر بھی ہے۔ اس کے نرخ بھی ڈینگی کے دنوں میں سوگنا ہوجاتے ہیں اس کے بارے میں مشہور ہے کہ چقندرخون بڑھاتاہے کیونکہ ڈینگی کی وجہ سے پلیٹلس خطرناک حد تک کم ہوجاتے ہیں تو ان کا حل مکمل خون لگوانا نہیں ہے بلکہ یہ مکمل خون سے نکلاہوا ایک حصہ ہے۔ ہسپتالوں کے لیبارٹری والے یہ جز پہلے سے نکال کر رکھ لیتے ہیں یا ڈونر سے خون لے کر ان کے خون سے پلیٹلس نکال کر متاثر مریض کو لگادیتے ہیں۔ اس طرح کا خون کا لگانا بہت جلد اور بہتر کام کرتاہے جبکہ پپیتااور چقندر یہ کام بہت دیر میں کرے گا ۔ ڈینگی کے مریض کے پلیٹلس جلدی سے کم ہورہے ہوتے ہیں لہٰذا اتنی ہی مستعدی اور زیادہ مقدارمیں پلیٹلس لگائے جانے ضروری ہیں۔ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ پلیٹلس کے کم ہونے کو روکنے کی ادویات کا استعمال پہلے ہونا چاہئے۔
میں ایک بارپھر اور کھل کرلکھ رہاہوں کہ گھریلوں ٹوٹکے اگر استعمال کرنے کی نوبت آہی جاتی ہے تو کسی مستند ڈاکٹر کی ہدایت کے بعد استعمال کریں گائوں ، محلے کے بزرگوں یا بوڑی عورتوں اور اس سے بھی بڑھ کر گلی محلے میں بیٹھے نیم حکیموں کے نسخے تو کبھی بھی استعمال نہ کریں۔ شہرچاہے چھوٹاہو یا بڑا ہسپتال ضرور ہوتاہے اور اگر چھوٹا ہسپتال بھی ہووہاں ڈاکٹر ضرور موجود ہوگا پہلے تو وہ خود اعلاج کرے گااور اگر اس کے بس میں نہ ہواتو وہ مریض کوبروقت شہر کے بڑے ہسپتال کو بھیج دے گا یوں کسی قسم کا جانی نقصان نہ ہونے پائے گا۔ لیکن اگر آپ نے گائوں کے بڑے بزرگوں کے ٹوٹکے استعمال کرنے شروع کردیئے اور ہسپتال نہ گئے تو عین ممکن ہے کہ مریض کی موت بھی ہوجائے۔ آج ہم سائنس کے دور میں رہ رہے ہیں اور ہر آنے والے دن نئے علاج دریافت ہورہے ہیں ہر طرح کی مرض کے آنے کے بعد ریسرچ کا باب کھل جاتاہے اور ہم نے دیکھا کہ کیسے ہر قسم کی بیماری کا علاج دریافت ہورہاہے۔ ایک زمانہ میں تپ دق موزی مرض تھی اب اگر بروقت علاج کروالیا جائے تو اس موزی مرض سے بچاجاسکتاہے اور اب تپ دق سے اموات تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پولیو کا متاثر مریض ساری عمر کے لئے معذوری کی زندگی گزارنے پر مجبورہوجاتاہے لیکن اب چند بوند ویکسین کے پی لئے جائیں تو اس مستقل بھی بچاجاسکتاہے اور ایک فعال پاکستانی کی طرح زندگی گزار سکتاہے۔

مزید پڑھیں:  تجاوزات کی سرپرستی