آگ اور پانی کا ملاپ؟

پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین نے وزیر اعلیٰ ہائوس پشاور میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور سے ملاقات اس موقع پر منظور پشتین نے11اکتوبر کو ہونے والی پشتون عدالت کے حوالہ سے آگاہ کیا انہوں نے پی ٹی آئی کو بھی پشتون عدالت میں شمولیت کی دعوت دی۔ بیرسٹر محمد علی سیف کے مطابق وزیر اعلیٰ ہائوس میں ہوئی ہے وزیر اعلیٰ نے صوبے میں امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے منظور پشتین سے بات کی جبکہ منظور پشتین نے 11اکتوبر کی پشتون عدالت کے بارے میں وزیر اعلیٰ کو بتایا ۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعلیٰ نے منظور پشتین کو بتایا کہ ان کے تمام مطالبات جو آئین کے مطابق ہیں ان میں پی ٹی آئی ان کے ساتھ ہے تاہم ایسے مطالبات جو آئین کے خلاف ہوںگے اس پر پی ٹی آئی ان کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ ذرائع کے مطابق علی امین گنڈاپور نے منظور پشتین کے مطالبات پارٹی قائد عمران خان تک پہنچانے کی یقین دہانی کرائی اور کہا کہ عمران خان سے ملاقات اور مشورہ کے بعد ان کے احکامات کے مطابق پی ٹی آئی اپنا موقف جاری کرے گی۔ واضح رہے کہ علی امین گنڈاپور اسلام آباد جلسے کے بعد پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں منظور پشتین سے ملاقات کرنے کا اعلان کیا تھا اور پارلیمانی پارٹی کو بھی اعتماد میں لیا تھا ۔صوبے کے وزیر اعلیٰ سے ایک قوم پرست رہنما کی ملاقات اور ان سے عوامی مسائل و مشکلات کے حوالے سے گفتگو ار وزیر اعلیٰ کی یقین دہانی کی حد تک اس ملاقات میں کوئی قباحت نہیں تھی لیکن ان مطالبات کے علاوہ منظور پشتین کی قیادت میں ضم اضلاع اور پختون بیلٹ میں جو سرگرمیاں ہوتی رہتی ہیں اور اس میں جن خیالات کا اظہار سامنے آتا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں اس حد تک بھی قانون کو ہاتھ میں لئے بغیر ا ختلافات اور تحفظ کے اظہار کی گنجائش نکل سکتی ہے تاہم ان کے جلسوں اور اجتماعات میں سرحد پار کی بھی نمائندگی کاجو تاثر دیاجاتا ہے یاپھر سرحد پارسے بھی تائید وحمایت اور روابط کاجو عمل ہے اس کے تناظر میں صوبے کے وزیر اعلیٰ کی ان سے ملاقات اور پھر خاص طور پر صوبے میں آئینی طور پر موجود اسمبلی اور عدالتوں کے ہوتے ہوئے ”پشتون قامی عدالت”کے نام سے اس ماہ کے دوسرے عشرے کے اول میں جس سرگرمی کی تیاری جاری ہے ایسے میں وزیر اعلیٰ کو اس ملاقات سے احتراز کرنے کی ضرورت تھی مشترکہ مخالفین یا پھر مشترکہ مخالفت کا عنصر ان کی یکجائی کا اگر سبب ہے اور تحریک انصاف اس ضمن میں ان کی حمایت کا کوئی اعلان جاری کرتی ہے تو پھر اس کے بعد تحریک انصاف کو قومی سطح کی ایسی مقبول جماعت جوملک میں ایک مرتبہ حکمران بھی رہی ہے اور آئندہ بھی کامیابی کے امکانات روشن ہیں قیادت کی ایک غلطی اسے صوبے کی سطح تک محدود کرنے کا سبب بن سکتی ہے اب یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ ملک گیر جماعت کا کردارپسند کرتے ہیں یا پھر خیبر پختونخوا تک سکڑنا ان کو گوارا ہے ۔ ہمارے تئیں تحریک انصاف کا گڑھ اور مرکز خیبر پختونخوا ضرور ہے لیکن پنجاب میں بھی مقبول جماعت ہے سندھ اور بلوچستان میں بھی ان کی حمایت موجود ہے ہر بار خیبر پختونخوا سے اسلام آباد اور لاہور احتجاجی قافلے لے کر جانا اور وزیر اعلیٰ کا صوبے کی مشینری کے استعمال کے بلند وبانگ اعتراف و اعلان کا عمل بھی تسلسل کے ساتھ ٹھیک اس لئے نہیں کہ اس سے بھی تحریک انصاف پر صرف خیبر پختونخوا کی نمائندگی کی حامل جماعت کا لیبل لگ جاتا ہے جس کا تقاضا ہے کہ پنجاب کی حد تک احتجاج تحریک انصاف کے پنجاب کی صوبائی قیادت اور کارکن کریں اور جب ملک گیر جلسے کا انعقاد ہو اس وقت ہی صوبے کے طول و عرض کے کارکنوں کو دعوت دی جائے ۔ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا جس طرح جذباتی بیانات سے خیبر پختونخوا اور پنجاب کے درمیان پل گرانے کا عمل کر رہے ہیں اور مرکز کے ساتھ اس عمل سے روابط پر جو اثرات مرتب ہو رہے ہیں وہ کسی طور صوبے اور ملک کے مفاد میں نہیں سیاسی جدوجہد کو سیاسی جدوجہد تک رکھنا ہی مناسب حکمت عملی ہو گا ۔دیکھا جائے تو عوامی مسائل کے حل اور تحفظات کے ازالے کے بعد پی ٹی ایم کے آدھے سے زائد مطالبات باقی ہی نہیں رہیں گے ان کے مطالبات کی بنیاد ناانصافی اور احساس محرومی ہیں جن کو دور کرنا صوبائی حکومت کی ذمہ داری اور دائرہ اختیار ہے صوبائی حکومت کو گیارہ اکتوبر کو پشتون عدالت کی آڑ میں حکومتی اختیار کوچیلنج کرنے کی حمایت سے فوری طور پر لاتعلقی کا اعلان کردینا چاہئے انتظامی، آئینی اور قانونی معاملات کو سیاست کی عینک لگا کر اور سیاسی دبائو کے لئے استعمال کرنے کی غلطی سے گریز کرنے کی ضرورت ہے ایسی غلطی کا ارتکاب نہ کیا جائے جس کا ازالہ ممکن نہ ہو۔ صوبے کے سیاسی نمائندوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ وقتی مفادات کی تکمیل ان کے لئے طویل المدت مفید نہیں ہوگی سیاستدانوں کو سماجی ، سیاسی اور معاشی بدحالی سے طاقت حاصل کرنے والے عناصر سے ہوشیار رہنا ہو گا اور حکومتی عملداری وقومی نقطہ نظر کو تمام تر مشکلاتاور ناانصافیوں کے باوجود مد نظر رکھنا ہو گا اور اسے ہی اولیت دینی ہو گی اورحدود و قیود کی پاسداری کرنی ہوگی۔

مزید پڑھیں:  ججز کے درمیان خلیج اور عدلیہ