ستائش رخ جاناں میں نطق و لب کھولیں

ابھی کچھ عرصے کی بات ہے جب عارف علوی نام کے ایک صاحب قصر صدارت میں براجمان تھے ویسے تو انہوں نے آئین شکنی کے ریکارڈ قائم کرتے ہوئے اپنی سابقہ جماعت جس سے وہ وابستگی کے دوران اسلام آباد میں احتجاج کے دووران پی ٹی وی پر حملہ آوروں کا ساتھ دیتے ہوئے فخریہ انداز میں پارٹی سربراہ کو موبائل پر سرکاری ٹی وی سٹیشن پر قبضے کی داستان سناتے ہوتے بھی پائے گئے تھے مگر پارٹی کے اقتدار سنبھالتے ہی(اس حوالے سے ہم آرٹی ایس بٹھانے کا حوالہ دیکر اس جماعت کے اقتدار پر کوئی سوال اٹھانا نہیں چاہتے) بطور صدرحلف لینے کے بعد آئینی تقاضوں کے عین مطابق صدر کے عہدے کی غیر جانبدارانہ کردار کو برقرارنہ رکھ سکے بلکہ قدم قدم پر اس منصب کے تقاضوں کے پرخچے اڑاتے رہے اور دھٹائی کی آخری حدوں کو بھی مسلسل چھوتے رہے بلکہ کر اس کرتے رہے، ان کی دیکھا دیکھی دیگر کئیآئینی اداروں کے عہدیداروں نے بھی ان کی تقلید کرنے میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں کی۔ یعنی سینیٹ کے ایک چیئرمین کے علاوہ خیبرپختونخوا اسمبلی کے اس دور کے سپیکر نے بھی بڑی ڈھٹائی سے ”پارٹی” اجلاسوں میں شرکت کو باعث آئین شکنی نہیں سمجھا اور دھڑلے سے اپنی حرکتوں کو جائز قرار دیتے رہے۔ اس کے بعد یہ سلسلہ اب ہر طرف چل پڑا ہے اور کسی کو یہ جرأت نہیں ہو رہی ہے کہ وہ عدلیہ سے رجوع کرکے ان آئینی عہدوں کے تحفظ اور ان پر عمل درآمد کے حوالے سے اس آئین شکنی کو رکوانے کی کوشش کرے۔ خیر جانے دیں، ہمیں کیا، کہ ملک میں اور کونسے کام آئین کے ”تابع فرمان” انداز میں ہو رہے ہیں، ہم تو در اصل عارف علوی کا ذکر ایک اور حوالے سے کرنا چاہتے تھے جس کی مدح بنتی ہے یعنی موصوف نے کچھ نہ کچھ تو اچھے کام بھی کئے ہیں مگر حیرت کی بات ہے کے جہاں لوگوں نے ان کی مسلسل آئین شکنی سے کوئی تعرض نہیں کیا یعنی بقول اس قدیم استاد شاعر تسلیم
گلا بے خطا کاٹ کر رکھ دیا
کسی نے تعرض نہ ان سے کیا
وہاں اس بے چارے نے ایک اچھا کام کیا تو اس پر بعض لوگوں نے ان پراعتراضات کی بوچھاڑ کر دی اور معترضین کے مطابق انہوں نے ایوان صدر میں منعقدہ ایک مشاعرے پر لاکھوں روپے خرچ کرکے گویا قومی خزانے کو زبردست نقصان پہنچایا حالانکہ ہمارے ہاں کیا صاحبان اقتدار کیا امراء ، کیا روئسا ، بلکہ عام لوگوں کا وتیرہ ہے کہ وہ موسیقی کی محفلوں میں ناچ گانے والے فنکاروں پر کروڑوں لٹا دیتے ہیں ، اس حوالے سے ہماری تاریخ بہت ہی ”روشن” ہے اور اس کا سلسلہ ایوبی آمریت سے جب شہنشاہ ایران کے سامنے ایک فلمی اداکارہ کو ناچنے پر مجبور کرنے کے لئے اسے گرفتار کرکے لایا گیا جس پر بعد میں فلم زرقا میں ایک گانا بھی اسی اداکارہ پر فلم بند کیا گیا کلام حبیب جالب جیسے انقلابی شاعر کا تھا اور جس کے بول تھے ، رقص رنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے ، وہاں سے یہ سلسلہ چلتا ہوا جنرل مشرف کے دور تک آتے آتے اس محفل میں ڈھل گیا تھا جب ایک کلاسیکی گلوکار کی ا یوان صدر میں پرفارمنس کے دوران خود جنرل مشرف نے بھی اس فنکار کا ساتھ دیتے ہوئے تان لپٹے مار کر کلاسیکی موسیقی کے ایک اچھے گلوکار ہونے کا ثبوت دیا ، اور ظاہر ہے فنکار کو کتنی ادائیگی ہوئی ہوگی اس کا نہ کسی نے حساب لیا نہ اس پر اعتراض کیا مگر صرف بے چارے عارف علوی کو پاکستان بھر کے چیدہ چیدہ شاعروں کو ایوان صدر میںمدعو کرکے اسلام آباد میں پنج ستاری ہوٹلوں میں قیام و طعام کے علاوہ اس وقت ہماری معلومات کے مطابق دس دس ہزار روپے بطور نذرانہ پیش کئے حالانکہ ہماری دانست میں یہ رقم اس سے بھی زیادہ ہونی چاہئے تھی کیونکہ جس ملک میں (انتہائی معذرت کے ساتھ )موسیقی سے وابستہ فنکاروں کو لاکھوں میں ادائیگی ہوتی ہے وہاں شاعروں کی اتنی بھی ویلیو نہیں کہ انہیں کم از کم 25 ہزار ہی سہی مشاعرے میں شرکت کے معاوضے کے طور پر ادا کی جاتیںحالانکہ ہماری تاریخ تو ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جب دلی ، لکھنو ، فیض آباد کے صاحبان اقتدار،جاگیردار،نوابین شاعروں کو خلعت کے ساتھ ساتھ جاگیریں اور القابات عطا کر دیا کرتے تھے ، مگر اس دور میں بھی آج کی طرح کچھ بدنصیب شاعر اگرچہ عوامی سطح پر پذیرائی پاتے تھے مگر درباروں سے انہیں کچھ نہیں ملتا تھا اور وہ عسرت کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے جیسے کہ میر تقی میر کو عوامی حلقوں میں خدائے سخن جیسے لقب سے نوازا گیا مگر ان کی عسرت کو دیکھ کر جب انہوں نے مسائل سے تنگ آکر لکھنو کا رخ کیا تو ایک مشاعرے کا سن کر وہاں جا پہنچے مگر کوئی ان کو پہچان نہ سکا اور ان کی ظاہری حالت دیکھ کر ان پر پنڈال ہنسنے لگا تب ا نہوں نے کیا خوب فی البدیہہ کہہ کر لوگوں کی زبانوں کو گنگ کر دیا
کیا بود و باش پوچھو ہو پورٹ کے ساکنو
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
اس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی جڑے دیار کے
اسی طرح مرزا غالب کو بھی دربار دلی سے دبیر الملک اور دیگر خطابات عطا ہوئے مگر ان کو آخری عمر میں سرکاری وظیفہ بحال کرنے کیلئے انگریزوں کے آگے جس طرح عرضیاں گزارنا پڑیں وہ ایک تاریخ ہے ، یہ اتنی باتیں اس لئے یاد آئیں کہ ہمارا عمومی وتیرہ آج بھی نہیں بدلااور مختلف اداروں کی جانب سے شاعروں کومدعو کرکیانہیں صرف ”مسکراہٹوں ، شکریئے اور پیٹھ پر تھپکیاں” دینے سے نوازا تو جاتا ہے مگر انہیں معاوضہ دینے پر کوئی آسانی سے تیار نہیں ہوتا یعنی بقول اختر سیماب
ستائش رخ جاناں میں نطق و لب کھولیں
بھرا ہو پیٹ اگر ہم بھی فارسی بولیں

مزید پڑھیں:  بجلی کی قیمتوں میں کمی کی یقین دہانی