ڈاکٹر ذاکر نائیک کادورہ پاکستان

عظیم اسلامی سکالر ڈاکٹر غلام مرتضی ملک چند سال پہلے کچھ بد بختوں کے ہاتھوں شہید ہو گئے تو ان کی بیوہ نے ایک بات کہی جو صرف ہوشمند انسان ہی سمجھ سکتے ہیں۔ بیگم صاحبہ نے فرمایا۔کہ اچھا ہوا کہ وہ اس دنیا سے چلے گئے۔یہ قوم اس قابل ہی نہیں کہ میرے شوہر جیسا عظیم مسلم سکالر ان کے درمیان موجود ہو۔ سوچتا ہوں کہ زر پرست ملاؤں ، جعلی پیروں اور کرپٹ سیاستدانوں کے ہاتھوں تقسیم اور انتشار کے شکار پاکستانی قوم کے درمیان ڈاکٹر ذاکر نائیک جیسے عظیم اسلامک سکالر کو آنا ہی نہیں چاہئے تھا۔ ڈاکٹر صاحب پاکستان میں ایک جگہ تقریر کر چکے تو ایک لڑکی نے سوال کیا کہ ہمارے علاقے میں لوگ اچھے مسلمان بھی ہیں۔نمازیں بھی پڑھتے ہیں۔لیکن ساتھ ساتھ لواطت میں بھی مبتلا ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ آپ دین اور منافقت کو الگ الگ کر لیں۔کسی غلط ایکٹ کو دین سے مت جوڑیں۔یا تو وہ لوگ سچے مسلمان نہیں ہیں اور یا ان پر لگایا گیا الزام غلط ہے۔اس جواب پر کچھ لوگ خواہ مخواہ معترض ہو گئے۔ ایک اور موقع پر ڈاکٹر صاحب سٹیج پر تقریر کر چکے تو بہت ساری جوان لڑکیاں سٹیج پر چڑھ کر ان سے ہاتھ ملانے کی کوشش کرنے لگیں۔یہ دیکھ کر ڈاکٹر صاحب ان سے ہاتھ ملائے بغیر سٹیج سے اتر گئے۔ان کی اس حرکت پر بھی کچھ خاندانی جعلی پیر اور ان کے گمراہ معتقدین اعتراض کرنے لگے۔تو ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ یہ لڑکیاں میرے لئے غیر محرم تھیں۔اس لئے میں نے ان سے ہاتھ ملانے سے گریز کیا۔ایک چینل پر اینکر کے سوال پر ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ ایک نارمل مرد کے دل میں عورت کیلئے قدرتی طور پر ایک کشش موجود ہوتی ہے۔اور اگر ایک میک اپ کی ہوئی حسین عورت مرد کے سامنے بیس منٹ کیلئے بھی رہے تو نارمل مرد کے دل میں ہلچل ضرور پیدا ہوتی ہے۔اور اگر اس کے دل میں ہلچل پیدا نہ ہو تو اسے کسی نفسیاتی ڈاکٹر کے پاس جانا چاہئے جو چیک کرکے بتائے کہ اس شخص کو کوئی ذہنی یا جسمانی بیماری تو نہیں ہے۔کیونکہ نارمل مرد پر عورت کا اثر انداز ہونا ایک فطری امر ہے اور اسی لئے دین فطرت اسلام نے عورت کو مکمل پردہ کرنے اور مرد کو نظر جھکانے کا حکم دیا ہے۔کیونکہ خالق کو اپنی تخلیق کے ہر ظاہر و باطن عادت اور کمزوریوں کا پتہ تھا۔اب بھلا ڈاکٹر صاحب کی مندرجہ بالا بات میں کونسی چیز غلط ہے۔لیکن یہاں کے کچھ پیر پرست جاہل فسادیوں نے ڈاکٹر صاحب کا بیان اپنے متعصب انداز میں سیاق و سباق کے بغیر پیش کرکے یہ پروپیگنڈہ شروع کیا ہے۔کہ ڈاکٹر صاحب کی نظر میں وہ مرد نارمل ہی نہیں۔جس کے سامنے کوئی لڑکی بیس منٹ کیلئے بیٹھے اور اس کے دل میں ہلچل پیدا نہ ہو۔کیونکہ ان جعلی پیروں کے ڈیروں پر مردوں اور عورتوں کا مخلوط میلہ ہر وقت لگا رہتا ہے۔اور پیر صاحب نامحرم عورتوں سے ہاتھ ملاتے ہوے بلکہ گلے لگاتے ہوے بھی کچھ شرم محسوس نہیں کرتے۔اور ڈاکٹر صاحب کی باتوں سے ان کا شغل خراب ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔دراصل بات یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب ہمیشہ پردہ پر زور دیتے ہیں۔اور مردوں اور عورتوں کے کھلم کھلا ملاپ کیخلاف ہیں۔ کئی سو سال سے علماء کرام اور بزرگان دین یہی نصیحت کرتے آئے ہیں۔کیونکہ مرد جتنا بھی متقی ہو لیکن قدرت نے مخالف جنس کیلئے اس میں ایک خواہش رکھی ہے۔ بزرگان دین تو یہاں تک کہتے آئے ہیں کہ اگر ایک کمرے میں حضرت امام حسن بصری اور حضرت رابعہ بصری کو اکٹھے بند کیا جائے تو تیسرا ان کے درمیان شیطان آجاتا ہے۔اور دونوں کے دلوں میں ہلچل مچانے اور گناہ کی طرف مائل کرانے کی کوشش کرتا ہے۔یورپ اور امریکہ میں تو اگر ایک نوجوان لڑکا لڑکیوں میں دلچسپی نہ لے اور گرل فرینڈ بنانے کی کوشش نہ کرے۔ یا ایک لڑکی بوائے فرینڈ بنانے میں دلچسپی نہ لے۔تو والدین ایسے بچوں کو ماہر نفسیات کے پاس لے جاتے ہیں کہ کہیں بچہ ابنارمل تو نہیں۔ڈاکٹر ذاکر نائیک تو چونکہ میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ اس لئے انہوں نے علماء دین ، مغربی سائیکاٹرسٹس اور سائیکالوجسٹس کی آراء کی روشنی میں یہ بات کہی ہے۔کہ بے پردہ عورت ضرور مردوں کو اپنی طرف متوجہ کرسکتی ہے۔اس لئے عورتوں کیلئے پردے کا حکم ہے اور مردوں کیلئے نظر جھکانے کا۔صدیوں سے علماء کرام اور مشائخ عظام اسی لئے مخلوط تعلیم کیخلاف ہیں۔کہ ایسے ماحول میں نارمل نوجوانوں میں سفلی جذبات ضرور پیدا ہوتے ہیں۔خواہ ان کی شدت بہت کم کیوں نہ ہو۔جس اللہ نے یہ مشین بنائی ہے۔اس کو اس مشین کے ہر پرزے کا علم تھا۔
و لقد خلقنا الانسان و نعلم ما توسوس بہ نفسہ و نحن اقرب الیہ من حبل الورید (القرآن)
تبھی توعورت کو پردے کا حکم دیا۔اور مردوں کو پہلی نظر معاف لیکن دوسری نظر ڈالنے سے روک دیا۔اور ماں باپ کیلئے حکم ہے کہ جونہی بچے بالغ ہوں تو ان کی شادی کرا دیں۔تاکہ وہ کسی گناہ میں مبتلا نہ ہوں۔موبائل اور انٹرنیٹ نے بچوں کو وقت سے پہلے بالغ کرکے فساد پھیلا دیا ہے۔اسی لئے کئی ملکوں میں mobile less childhood تحریک شروع ہو چکی ہے۔اور بچوں کو موبائل سے دور رکھا جارہا ہے۔کیونکہ مخالف جنس کی طرف کشش ہر جاندار کے جینز میں ہے۔اب جو لوگ نہ تو ڈاکٹر ہیں اور نہ سایئکالوجسٹس۔ان کو اول تو اس علم پر عبور نہیں اور یا وہ اس موضوع پر بات کرتے ہوے ججھکتے ہیں۔جبکہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کھل کر اس موضوع پر بولے ہیں۔اس لئے کچھ لوگوں کو یہ بات عجیب یا نا مناسب لگی۔تاریخ گواہ ہے کہ اسی شباب اور شراب نے مسلم حکمرانوں کو مدہوش کرکے بہت ساری مسلم ریاستیں تباہ کی ہیں۔ مغل ریاستیں اسی کا شکار ہوئیں۔حالیہ مثال مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کی ہے۔جو جنرل یحیی خان کی شراب اور شباب میں مدہوش رہنے کی بد خصلتوں کی وجہ سے ہوئی۔ خاتون پردہ کرے تو نہ عشقیہ شاعری،نہ جنس زدہ فلمیں،نہ فحش مکالمے،نہ لیلی اور مجنون بننے کی کہانیاں، نہ پسند کی شادیاں اور بعد میں طلاقیں ،نہ معشوقہ سے شادی نہ ہونے پر خود کشیاں اور نہ قبائلی طرز کی خونریزیاں۔دنیا کے سارے نارمل انسانوں بلکہ سارے جانداروں میں جنس مخالف کی طرف رغبت کا فطری جذبہ پایا جاتا ہے۔گوگل انسانی نفسیات اور جنس کی طرف جھکاؤ کی معلومات سے بھرا ہوا ہے۔بھارت میں جب کچھ عرصہ پہلے ٹرینوں اور بسوں میں گینگ ریپ بہت ذیادہ ہو گیا تو بھارتی حکومت کے بنائے ہوے کمیشن نے دوسری تجاویز کے علاوہ یہ تجویز بھی پیش کی کہ عورت گھر سے نکلتے ہوے اگر مناسب کپڑے پہنے اور بدن کو ڈھانپے تو گینگ ریپ کیسز میں بہت کمی آ سکتی ہے ۔امریکہ میں تقریبا چار دیائیاں پہلے دو گھنٹے کیلئے بجلی کیا گئی۔ کہ ہزاروں لڑکیوں کی عصمت لوٹی گئی۔اور وہ بھی اکثر کیسز میں اپنے مرد ساتھیوں اور پڑوسیوں کے ہاتھوں۔امریکی صدر کارٹر نے حیرانی کا اظہار کیا کہ کیا اس دو گھنٹے کے دوران میری قوم پاگل ہوگئی تھی۔کہ ہر ایک نے لڑکیوں کی عزت پر ڈاکہ ڈالا۔ان کو بتایا گیا کہ عورتوں کی عصمت بچانے کا واحد علاج اسلامی تعلیمات میں ہے۔جس میں عورت کیلئے مناسب کپڑے پہننے کا حکم ہے اور زناکار کیلئے کوڑوں اور موت کی سزا ہے۔عیسائی چرچوں میں رہنے والی ننیں اسی وجہ سے سر سے پاؤں تک ایک لمبی عباء میں اپنے بدن کو ڈھانپتی ہیں۔تاکہ ان کو دیکھ کر کسی مرد کے دل میں کوئی ہلچل ہی پیدا نہ ہو۔اور نہ گناہ کی طرف راغب ہو۔قرآن میں ولا تبرجن تبرج الجاہلیت الاولی کا حکم عورتوں کے پردے ہی کیلئے لئے ہے۔تاکہ ان کو دیکھ کر نہ تو مردوں کے دل میں ہلچل پیدا ہو اور نہ گناہ کا خیال آئے۔

مزید پڑھیں:  درسی کتب کی مفت فراہمی میں مشکلات