آلودگی سے انتہا درجے کی غفلت

ایک رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ آلودہ علاقوں میں رہنے والے لوگ ایسی ہوا میں سانس لیتے ہیں جو کم آلودہ علاقوں میں رہنے والوں کی نسبت چھ گنا زیادہ آلودہ ہے اور بدقسمتی سے ہمارے شہر پشاور کا شمار بھی ان شہروں میں ہوتا ہے صوبے کے دیگر شہروں کی صورتحال بھی مختلف نہ ہو گی یہ رپورٹ ہمارے لئے خطرے کی گھنٹی ہے لیکن بجائے کہ اسے سنجیدگی سے لیا جائے اس کے بجائے اس موضوع کو بڑی حد تک لاتعلقی کا سامنا ہے۔امر واقع یہ ہے کہ گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ اور بجلی کی پیداوار کے لئے فوسل فیول پر انحصار ملک کی آلودگی کے بحران میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔2000کی دہائی کے اوائل سے، گاڑیوں کی تعداد میں چار گنا اضافہ ہوا ہے، جب کہ پاکستان اور پڑوسی ممالک میں جیواشم ایندھن سے بجلی کی پیداوار1998سے2017تک تین گنا بڑھ گئی ہے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ اس رپورٹ کا جائزہ لے اور اپنے شہریوں کے مستقبل کے تحفظ کے لئے طویل المدتی پالیسی وضع کرے۔یاد رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے بھی صحت مند ماحول کے حق کو تمام شہریوں کے بنیادی آئینی حقوق کا حصہ قرار دیاگیا ہے۔لیکن محولہ صورتحال پر توجہ دینے والا کوئی نہیں کیا صوبے میں ماحولیات نام کی کوئی چیز ہے اور اس کے تحفظات کی ذمہ داری کا کسی کو احساس ہے بھی یانہیں۔

مزید پڑھیں:  انٹرنیٹ سروس معطلی؟