بروقت توجہ کی ضرورت

پشتون تحفظ موومنٹ جو اب قانونی طور پر کالعدم تنظیم کے زمرے میں آچکی ہے اس کے کچھ نعروں او موقف پر شدید قسم کے تحفظات کی پوری پوری گنجائش ہے اور اس حوالے سے ریاست کی حساسیت بھی بلاوجہ نہیں لیکن ان تمام تر تحفظات اور مبنی برناپسندیدگی امور پر میرے نزدیک ایک قابل تعریف امر یہ ہے کہ وہ امن کی بات کرتے ہیں ان کی طرف سے عملی طور پر اس چیز کی کوشش نظر آتی ہے کہ امن و آشتی کے کردار کا مظاہرہ ہومن حیث المجموع ان کو آئین او قانون کے اندر رہ کرجدوجہد کرنے والوں میں سے ہی گنا جانا چاہئے تاوقتیکہ عملی طور پر ان عناصر کا رجحان تبدیل نہ ہو مجھے اس کا خدشہ ان تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں اس لئے ہے کہ کراچی اور حیدر آباد سندھ میں جب ایم کیو ایم بنی مہاجروں کی سیاست کی محرومیوں کی بات ہوتی رہی نظام کا حصہ بنتے او رحکومت میں حصہ دار رہے پہلے امیدوں کی دنیا آباد ہوئی پھر توقعات پیدا ہوئیں دھیرے دھیرے احساسات کا خون ہوتا گیا اور مایوسیاں جنم لینے لگیں پھر شدت پسندی کے رجحانات غالب آتے گئے اور مہاجروں جیسی پرامن برادری او ان کی جماعت کا عسکری ونگ وجود میں آیا جو جنوبی افریقہ سے لے کر کراچی و حید ر آباد کی گلیوں تک وجود رکھنے لگا کراچی کے حالات کیا رہے کس طرح پھر ریاست و حکومت کو اپنے ہی چہیتوں کو راہ راست پر لانے کے لئے کیا کچھ کرنا پڑا اور یہ خود کردہ را علاج نیست کے مصداق کب تک رہا حالات سبھی کے سامنے ہیں میرے نزدیک تحریک انصاف بھی کم وبیش قیام تاایندم اسی طرح کے مماثل حالات سے دو چار رہی فرق یہ کہ اس کے نوجوانوں نے کی بورڈ کا محاذ سنبھالا اور لفظوں کی گولہ باری شروع کی یہ بھی کچھ کم تباہ کن نہیں ہے یہ بھی ایک قسم کی لفظی اور ذہنی تشدد اور انتہا پسندی کی ہی کہلائے گی ان سارے حالات کا بیان اس خدشہ کے اظہار کے پس پردہ وجہ کو سامنے لانا تھا جو کالعدم پشتون تحفظ موومنٹ کے حوالے سے درپیش ہے دھیرے دھیرے اور آہستہ آہستہ جب ہر طرف سے مایوسی اور ناکامی سے دو چار ہونے کا سلسلہ طویل ہو تو پھر منفی راستہ ہی باقی بچتا ہے اسے اس راہ سے بچانا کالعدم تنظیم کی قیادت صوبائی و مرکزی حکومت اور ریاست سبھی کی ذمہ داری ہے ۔جس کا بروقت ادراک اور اقدامات ضروری ہیں اب تک کی صورتحال مختلف تھی اب پشتون قومی جرگہ کے نام سے عوامی طاقت کا مظاہرہ رکاوٹوں اور پابندیوں کے باوجود کیا گیا نظم و ضبط کی پابندی اور شہر ی زندگی کو معطل و متاثر نہ کرکے مثبت چہرہ سامنے لایا گیا مخالفت کے باجود باعث اعتراض امور کم ہی ملتے ہیں لیکن کیا اس کے بعدبھی اس کا چہرہ یہی رہے گا یقین سے نہیں کہا جا سکتا مشکل امر یہ کہ مصدقہ ابلاغیاتی ذرائع سے اس کی سرگرمیاں رپورٹ نہیں ہوئیں اور غیر مصدقہ ذرائع سے اس کے حوالے سے کچھ سطحی معلومات کی بنا ء پر اس اجتماع کی سرگرمیوں کا جائزہ و تبصرہ ذمہ دارانہ رائے کا اظہار نہیں ہو گا اس لئے اس سے قطع نظر اور دو محدود اظہار خیال بصورت مختصر ویڈیو از مقام اجتماع کے تناظر میں بات ہو سکتی ہے ایک ویڈیو میں ایک نوجوان کے گمراہ کن سوال جس میں افغانستان کی بھی ٹھیکیداری لینے تک کی بات تھی ایک اوسط عمر کے باریش شخص نے نہایت وقار کے ساتھ ہر چیز اور ہر بات کو ملکی سرحدوں اور ملکی آئین کی حدود کے اندر رہتے ہوئے اس کی پوری وضاحت و رعایت کے ساتھ دیا اور اس جرگہ کا جو چہرہ پیش کیا اس حوالے سے بال برابر بھی کسی اختلاف کی گنجائش نہیں لیکن یہ صرف ایک مثال تھی ایک دوسری ویڈیو میں اسی عمر کے کلین شیو شخص نے لاٹھی کا سہارا لیتے ہوئے خیبر پختونخوا کے وسائل و عوامی قوت کو بروئے کار لا کر پختونوں کا مستقبل سنوارے جاے کی جو بات کی وہ اپنی جگہ سوال یہ بھی نہیں کہ اس عمل کے لئے لائحہ عمل کیا ہو گا اسے بھی ایک طرف رکھتے ہیں قابل اعتراض بات پنجاب مخالف ذہنیت اور محرومیوں کا ٹوکرا پنجاب اور پنجابیوں کے سر رکھنا تھا یہ بھی ان کا نقطہ نظر تھا اس کا بھی طوعاً وکرھاً احترام ہے اس سب کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے ضم اضلاع کے عوام کی محرومیوں اور مسائل سے بھی صرف نظر کی گنجائش نہیں اس میں اسٹیبلشمنٹ اور بقول ان کے پنجاب کو بھی مورد الزام ٹھہرایا جانا غلط نہیں اس کا پورا حق حاصل ہے لیکن بصد احترام سوال یہ ہے کہ گیارہ بارہ سالوں سے صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت ہے جرگہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سے سوال کسی نے کیوں نہ کیا ۔ اے این پی اور جے یو آئی صوبے کی حکمران جماعتیں رہی ہیں اس طرح مسلم لیگ نون پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی حکمران یا پھر شریک حکومت رہی ہیں ان سے سوال کیوں نہ ہوا ۔ افراسیاب خٹک ، ایمل ولی خان سے پنڈال میں کسی نے کیوں شکوہ نہ کیا کہ تم تو قوم پرست تھے پنجاب اور اسٹیلشمنٹ کو للکارنے والے تمہارے دور حکومت میں ہی پشتونوں کی فلاح و بہتری کی بجائے ابتلا کا دور کیوں پیش آیا تم لوگوں نے اس صوبے کے لئے کیا کیا ”پنجاب کے وزیر اعظم” نواز شریف ” کے اتحادی کیوں بنے اور پھر جب صوبے کی پوری حکمرانی ملی اس وقت صوبے کے حقوق کے لئے کیا نمایاں کام کیا اسی طرح مولانا فضل الرحمن جرگے میں شاید نہ گئے وہ ملکی سیاست کے اہم کھلاڑی اور کردار چلے آرہے ہیں ان کی جماعت کی بھی صوبے میں حکومت رہی انہوں نے کیا کیا ، گورنر خیبر پختونخوا کی جماعت صوبے کی حکمران رہی آفتاب شیرپائو دو مرتبہ وزیر اعلیٰ رہے آج ان کو بھی قوم پرستی کا شوق چڑھا ہے ان سب پختون حکمرانوں نے صوبے کے عوام کے لئے کیا کیا ان سے سوال ہونا چاہئے تھا اور پختونوں کاجرگہ اہم موقع تھا جسے ضائع کیاگیا جائز شکایات اور احتجاج کا حق بھی تسلیم احساس محرومیوں کے حوالے سے موقف بھی یکسر قابل رد نہیں جرگہ بھی کر لیا مگر جب اپنوں سے ابتداء کرنے کی بجائے غیروں کو الزام دیا گیا تو یہ انصاف نہ ہوا انصاف کا تقاضا ہے کہ پہلے صوبائی حکومت اور صوبے کے سیاسی عمائدین کا احتساب ہو پہلے اپنے گھر کی اصلاح کرکے پھر اٹک پار کا ضرور احتساب کیا جائے او کئوی رعایت نہ رکھی جائے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت شکایات و تحفظات کا اجتماع منعقد کرکے اظہار کرنے والوں کی شکایات کا ازالہ کرنے کی ذمہ داری نبھائے اور ان کو ایسے راستے کی طرف نہ دھکیلا جائے جو کسی کے لئے بھی اچھا نہ ہو نیز جہاں جہاں حکومتی عملداری کا سوال ہو اسے بھی مذاق نہ بنایا جائے اور بس۔

مزید پڑھیں:  آئینی ترمیم کی کھچڑی