فکری عدم برداشت اور پاکستان

پاکستانی معاشرے میں ہر شے انحطاط پذیر ہے ۔ معاشرتی روئیے ، انسانی برتاؤ ، لین دین اور ان سب سے بڑھکر جو
کام تشویشناک ہے وہ ہے فکری عدم برداشت ۔ یونانی معاشرے میں ترقی کی بنیاد ہی فکری رویوں کی آزادی سے شروع ہوئی تھی ۔ یہ عمل ہر اس معاشرے میں دیکھا گیا جہاں ترقی نظر آئی ۔ ہمارے معاشرے میں فکری طور پر لوگ بہت زیادہ تقسیم کا شکار ہیں ۔ معاشرے میں دو طرح کے لوگ اس تقسیم کا حصہ ہیں ، مذہبی لوگ اور سیاسی لوگ ۔ مذہبی بنیادوں پر مسلکوں اور فرقوں کی تعداد اب شمار سے باہر ہوگئی ہے ۔ اب ایک ایک مسلک اور فرقے میں درجنوں گروہ بن چکے ہیں ۔ جو ایک دوسرے کو بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ اور سیاسی لوگوں کو تو دوسرے سیاسی گروہ دشمن نظر آتے ہیں ۔ جس معاشرے میں عدم برداشت کی حالت یہ ہوجائے کہ وہاں کوئی کسی کی بات سننے کا روادار بھی نہ ہو اس معاشرے میں زندگی بہت مشکل ہوجاتی ہے ۔ جب سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی ہمنوا ہوتی ہیں تو ان جماعتوں کے رہنما اور کارکن ایک دوسرے کے گن گاتے ہیں ۔مگر جونہی ان کی راہیں جدا ہوجاتی ہیں ان کے تیور بدل جاتے ہیں اور پھر دشنام طرازی کا وہ سلسلہ شروع ہوجاتا ہے کہ انسان اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا ۔ اس ملک میں شخصیت پرستی اس انتہا تک پہنچ چکی ہے کہ لوگ جس شخصیت سے وہ محبت کرتے ہیں یا جس کے پیچھے چلتے ہیں اس کے خلاف کوئی بات سننا گوارا نہیں کرتے ۔ حالانکہ صحت مند معاشروں میں بھی لوگ شخصیات کو پسند کرتے ہیں لیکن اس دیوانگی کی حد تک نہیں کہ ان کے لیے والدین ، بہن بھائیوں یار دوستوں اور رشتہ داروں اور علاقے کے لوگوں کو چھوڑ دیں اور ان کے دشمن بن جائیں۔ارتھ شاستر سے لیکر جدید سیاسی بصیرت و شعور رکھنے والے ماہرین و مصنفین کی کتابیں اٹھا کر پڑھ لیں ۔ ان میں جس سیاست کی بات کی گئی ہے اور جو طور طریقے بتائے گئے ہیں ہمارے ہاں ان میں سے کچھ بھی اب باقی نہیں رہا ۔ اب ہم ایک ایسا معاشرہ بنا رہے ہیں جس میں ہر بندے کو دوسرا کا دشمن بنا رہے ہیں اور اسے نفرت کی تعلیم دے رہے ہیں ۔ یہ سلسلہ اب سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سطح تک آگیا ہے ۔ ہر علاقے کے غنڈے بدمعاش اب کسی نہ کسی سیاسی یا مذہبی سیاسی جماعت کے کارکن ہیں اور ان سیاسی و مذہبی جماعتوں کی آڑ میں جو ان کی جی میں آتا ہے کرگزرتے ہیں ۔ ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں بلکہ ملک کا سارا نظام ان کی سہولت کاری کرتا ہے ۔ اس ملک میں اب جھتے بن رہے ہیں ایک وقت ایسا آئے گا کہ جس کا جھتہ زیادہ طاقتور ہوگا وہ راج کرے گا اور کوئی قانون اس پر ہاتھ نہیں ڈال سکے گا ۔ وقتی ضرورتوں کے تحت ہم ان غنڈوں کو سر پر بیٹھا تو رہے ہیں لیکن جب یہ مزید طاقت پکڑ لیں گے تو سب سے پہلے اپنے پالنے والوں کو کھاجائیں گے ۔ یہ فطرت کا ایسا اصول ہے جس میں ہزاروں برسوں سے ابتک کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ۔ معاشرے میں سیاسی اور مذہبی لوگوں کے دیکھا دیکھی دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھی یہ روش اختیار کرلی ہے ۔ ہمارے معاشرہ کا ہر شخص تشدد پسند ہوگیا ہے ۔ اس کا بس چلے تو وہ خود تشدد پر اُتر آتا ہے اور بس نہ چلے تو دوسروں کو تشدد کرتا دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ دنیا تہذیب کے نئے دور میںداخل ہورہی ہے ، ترقی کی ایسی منزلیں طے کررہی ہے کہ ایک نئی انسانیت جنم لے رہی ہے اور ہمار احصہ اس عالمگیریت میں کوئی نہیں ہے ۔ ہم تاریخ کے وحشی دور کی طرف واپسی کررہے ہیں ۔ معاشرے میں عدم استحکام کی سب سے بڑی وجہ تو بے روزگار ی اور وسائل کی غلط تقسیم ہے ۔ لیکن اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خلا سے سے فائدہ اٹھا کر کچھ لوگ ، جماعتیں اور گروہ لوگوں کو اپنے فائدے اور مقاصد کے لیے غلط راستے پر ڈال رہے ہیں ۔ جس سے ان کو وقتی فائدہ تو ہوتا ہے مگر اس سے معاشرہ تباہ ہوجاتا ہے ۔ جن جن ممالک میں یہ صورتحال ہوئی وہاں ترقی ، تہذیب اور انسانیت نے دم توڑ دیا ہے ۔ ہم اس تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ لیکن نہ تو حکومت ، نہ عدالت ، نہ سیول سوسائٹی اور نہ ہی اکیڈیمیہ اس سلسلے میں کچھ کررہی ہے ۔ اس معاشرے میں فکری عدم برداشت ایک ایسا بم ہے جو جس جگہ بھی پھٹا اس کی تباہی شمار سے باہر ہوگی ۔ یہاں کوئی بندہ کسی بھی مخالف کو سننے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ ہر شخص کے پاس اپنے پیمانے ہیں اور اپنی سزا وجزا کے اصول ہیں ۔ معاشرہ ایک قانون ایک ترتیب سے وجود میں آتا ہے ۔ اور اس کی ترتیب اہل علم و بصیرت طے کرتے ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں یہ لوگ بھی تقسیم ہوچکے ہیں ۔کسی ایک بیانیے پر متفق ہونے کی جگہ یہ سب لوگ آپس میں تفرقہ ڈالنے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہیں ۔ فکری عدم برداشت وباء کی طرح پھیلتی ہے اور اس کی لپیٹ میں رفتہ رفتہ سب آجاتے ہیں ۔ یہ جو تقسیم در تقسیم کا عمل اس ملک اور معاشرے میں جاری ہے یہ ایک دن کسی بڑے سانحہ پر منتج ہوسکتا ہے ۔ اس ملک میں قانون توڑنے والوں کو تو حکومت اور عدالت تحفظ دے سکتی ہے اس لیے کہ وہ طاقتور ہیں اور قانونی راستوں سے تحفظ حاصل کرنے کے لیے وسائل رکھتے ہیں ۔ مگر جو ان کا شکار ہوتا ہے اس کے پاس تو کھانے کو کچھ نہیں ہے وہ قانون اور عدالت کا دروازہ کیسے کھٹکھٹائے گا ۔ ہم ملک کے آئین کی رو سے ایک فلاحی ریاست میں رہ رہے ہیں لیکن عملاً اب ایسا نہیں ہے ۔ یہاں اب قبضہ مافیا اور سیاسی و گروہی اور سمگلروں کا سکہ چلتا ہے ۔ ایک طرف بابو شاہی کی دنیا ہے اور دوسری طرف ان جھتوں اور گروہوں کا زور بیچ میں عوام ہیں ۔ اس کے تدارک کے لیے کوئی تدبیر سوچنی ہوگی۔ اس لیے کہ معاشرہ تقسیم در تقسیم کے عمل میں معاشرتی اخلاقیات اور قانوی حرکیات کو فراموش کردیتا ہے ۔ اسی کو طوائف الملوکی کہا جاتا تھا ۔ اب چونکہ زمانہ بدل گیا ہے اس لیے یہ طوائف الملوکی نئی شکل اور زیادہ بھیانک صورت میں سامنے آرہی ہے ۔ ریاست کو سب سے پہلے فکری عدم برداشت کا حل نکالنا ہوگا۔ یہ کیسے ممکن ہے اس کے لیے دنیا میں ہزاروں مثالیں موجود ہیں ، کسی ایک کامیاب ماڈل کو سامنے رکھ کر اپنے زمینی حقائق کا تجزیہ کرکے اس کو ممکن بنایا جاسکتا ہے ۔

مزید پڑھیں:  درسی کتب کی مفت فراہمی میں مشکلات