تبدیلی صرف ایسے آسکتی ہے

لاریب آسمان دور ہے مگر کتنا؟ یاد رکھنے والی بات فقط ایک ہے۔ قادر مطلق نے قرآن عظیم الشان میں باآواز بلند کہا خالق شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ دیر کیوں ہے حضرت اور اس کے ہاں اندھیر کیوں؟ دونوں باتیں درست نہیں۔ بچپن میں اپنی والدہ معظمہ سے سنا تھا پھر ساڑھے تین عشروں کی اگلی زندگی کے موڑ پر استادِ مکرم سید عالی رضوی نے ایک دن ارشاد فرمایا شاہ!یاد رکھو اللہ کے ہاں دیر کے اندھیر نہیں۔ والی بات ہر اعتبار غلط ہے۔ اصولی بات یہ ہے کہ مخلوق جسے اپنے لئے بہتر، ضروری اور فوری سمجھ رہی ہوتی ہے رب العالمین جانتا ہے کہ یہ میرے بندے کیلئے نقصان کا باعث ہے۔ قرآن نے اسی لئے پیغام پہنچایا عصر کی قسم انسان خسارے میں ہے۔ خسارہ سمجھنے کی شعوری کوشش کس نے کی؟ جلد بازی پر مائل طبیعت پر قابو پاکر جیا جاسکتا ہے مگر کیا فقط جینا ہی کافی ہے۔ فقط جینا ہی ہے تو انسان اور حیوان میں فرق کیا رہ جاتا ہے؟ سوالات قطار اندر قطار اترتے چلے آرہے ہیں۔ یہاں کسی نے کچھ سیکھنے کی شعوری کوشش نہیں کی ماسوائے مال بٹورنے کے ہنر کے۔کیا عجیب زمانہ ہے۔ ہر آدمی نفس کے گھوڑے کو سرپٹ دوڑائے پھرتا ہے اور دعوی یہ ہے کہ خواہشوں کی غلامی کا طوق پہلے اتاردیا تھا۔ اچھا واقعتا ایسا ہے تو پھر نفسانفسی کا دوردورہ کیوں ہے۔ شاہ لطیف یاد آنے لگے سراغ زندگی من میں اترنے سے ملتا ہے۔ طمع کے گھاٹ نے بہت رسوا کیا لوگوں کو لیکن لوگ ہیں کہ جوق در جوق اس کے کنارے اترنے کے لئے نفس کے گھوڑوں پر سوار دھول اڑاتے چلے آتے ہیں۔ کیا نظریہ کے بغیر زندہ رہا جاسکتا ہے۔ بہت سال قبل یہ سوال اپنے مربی و محسن شہید سید محسن نقوی سے دریافت کیا تو وہ گویا ہوئے کمزور دھاگوں سے بنی ڈور سے پتنگ اڑائو گے تو نتیجہ کیا نکلے گا؟ بے ساختہ عرض کیا پتنگ کٹ جائے گی۔ مسکراتے ہوئے بولے ” راجی (وہ مجھے ہمیشہ میرے نک نیم سے ہی بلاتے تھے) نظریہ انسانی زندگی میں مضبوط ڈور کی طرح کی اہمیت رکھتا ہے ورنہ فکر کی پتنگ کٹ جاتی ہے ہر دو چار قدم پر۔ انہوں نے چائے کا کپ اٹھانے کیلئے بڑھتے ہوئے ہاتھ کو روکا اور پھر سے بولے یاد رکھو جس نظریے میں لچک یعنی مکالمے کی صلاحیت نہ وہ انسان کی توہین کا باعث بن سکتا ہے توقیر کا کبھی نہیں "۔ بیسویں صدی کے اس دلنواز شاعر و محبوب انسان کوایک شام کے اترنے سے قبل محض مذہبی اختلافات پر چند درندوں نے موت کے گھاٹ اتاردیا۔ ان کا ایک قاتل اکرم لاہوری برسوں سکھر جیل میں رہا اور پھر اسے ضمانت مل گئی کیوں کس کے کہنے پر ؟ میری زبان بند ہے۔ ہاں یہ یاد ہے کہ ”ماضی میں سندھ کی سیاست کے دو اہم خاندانوں کو کہہ دیا گیاتھا کہ حضور جس دن اکرم لاہوری کو پھانسی لگی آپ کے بچے بھی زمین کا رزق ٹھہریں گے” جانے دیجئے کیا قصہ لے کر بیٹھ گیا مگر ابدی سچائی یہی ہے کہ ناحق قتل کئے جانے والوں کے پیارے نسل در نسل اپنے مقتولوں کو یاد کرتے روتے ہیں۔ نجانے امرائو القیس کیوں یاد آنے لگے۔ کہا تھا ساتھیو ٹھہرو کہ ہم گریہ کریں محبوب اورمنزل کی یاد میں بس ہمارا گریہ ہی تو ہے”۔ عربی شاعری کے چندے آفتاب جناب لبید نے کہا تھا زمانے نے جو طول طویل ہے اور گردش میں رہتا ہے، لوگوں کو زیر کرلیا ہے اور خود زیر نہ ہوا میں دیکھتا ہوں کہ مجھ پر کبھی دن آتا ہے اور کبھی رات، اور یہ دونوں گزرجانے کے بعد پلٹ کر آجاتے ہیں، میں دیکھتا ہوں کہ یہ سلسلہ روز و شب آج بھی، بے کم و کاست، روز اول کی طرح وارد ہوتا ہے، میں کمزور پڑگیا ہوں مگر وہ روز افزوں ہے۔فقیر راحموں ایک دن کہہ رہے تھے زندگی کی گواہی علم اور علم کی مکالمہ عرض کیا بانجھ ہوتے عہد میں علم اور مکالمے کی جگہ خودستائی اور جہل سے بندھے انکار نے لے لی ہے۔ لوگ سرمدی نغمہ سن کر سر تو دھنتے ہیں سرمدی نغمہ الاپنے کی حریت سے محروم ہوچکے۔ فقیر راحموں نے ایک قہقہہ ہوا کے دوش پر رکھا اور بولا شاہ تم نے الاپا تھا ناں سرمدی نغمہ کیا ہوا؟ زمانہ اپنی چال چل رہا ہے۔ محکوموں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اپنا حق مانگنے اور لینے کی حریت خاصے کی چیز ہے۔ لوگ نجات دہندہ کے انتظار میں ہیں۔ پانچ نجات دہندہ ہمارے ساڑھے سینتیس سال کھاگئے ہوا کیا؟ عرض کیا یار فقیر پریشان نہ ہوا کر۔ جب سکہ بند مولوی ٹی وی پروگراموں میں گالیاں دے، اداکار اسلام سمجھائے، سیاستدان امانت میں خیانت کرنے لگیں، جرنیل خود کو اقتدار اعلی کا مالک سمجھ لیں، پڑوسیوں کو شودر سمجھنے اور آٹھ محلے دور دوست تلاش کئے جائیں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ اپنی اصل سے کٹے لوگوں کا مستقبل کیا حال ہی کوئی نہیں ہوتا۔ معاف کیجئے گا یہ ہمارے ہم زاد نے کس طرف لگادیا مگر وہ بھی کیا کرے۔ آدمی محسوس کرتاہے تو بولتا ہے۔ اگلی شب سیاستدانوں کو من حیث الطبقہ گالیاں دینے میں مصروف ایک نوجوان سے عرض کیا جس ملک میں رہتے ہو یہ اچھا برا جیسا بھی ہے سیاستدانوں کابنایا ہوا ہی ہے۔ نوجوان بھڑک اٹھا۔ ایک تو یہ نوجوان بھڑکتے بہت ہیں۔ جمہوریت کے نام پر اقتدار پر قبضے کرنے والے خاندانوں نے جمہوریت کو اس قدر بدنام کردیا ہے کہ جس کو دیکھو منہ پھاڑ کر کہہ اٹھتا ہے اس سے تو فوج اچھی۔ بندگان خدا کیا دوسرے ممالک میں قدرتی آفات کے وقت فوج سول انتظامیہ کی مدد کو نہیں آتی؟ اچھا چار بار فوج نے اقتدار سنبھالا اور نعرہ تھا احتساب کا۔ کتنے لوگوں کا احتساب کیا؟ کیا وفاداروں کی نئی پنیری لگاکر کرپشن کے جدید طریقے ایجاد نہیں کروائے؟ کبھی کسی نے ایوب، ضیا الحق کی اولادوں اور مشرف یا ان کے ساجھے دار جرنیلوں سے دریافت کیا حضور!آپ اربوں کھربوں پتی کیسے ہوگئے۔ فقط ایک نسل پیچھے آپ کے دادا جان کی سماجی اورمالی حیثیت کیا تھی؟ سال دو سال بعد پاکستان کا دورہ فرمانے والے پاکستانیوں کی ذہنی حالت ان نوجوانوں سے بھی بدتر ہے۔ حضور فوج کا اقتدار اتنا ہی اعلی و ارفع ہے تو کینیڈا، آسٹریلیا، اٹلی، سپین، برطانیہ جن ملکوں کی اب آپ کے پاس شہریت ہے وہاں کے نئے ہم وطنوں سے کہیں ناں کہ اقتدار فوج کو دے دیا جائے۔ منہ نوچ لیں گے اور ہوسکتا ہے کوئی سر پھرا آپ کے خلاف عدالت سے رجوع کرلے اور نئی بابو گیری والی شہریت سے ہاتھ دھونا پڑے۔ معاف کیجئے گا پاکستان ایک حقیقی جمہوریت مملکت اسی صورت بن سکتا ہے کہ اولا بالادست طبقات کی غلامی سے نجات ملے، ثانیا دستور کی بہرصورت بالادستی ہو، ثالثا حقیقی عادلانہ نظام اور رابع وسائل کی منصفانہ تقسیم پر یقین رکھنے والی قیادت۔ جس دن پچیس کروڑوں لوگ اس حقیقت کو سمجھ لیں گے پاکستان تبدیل ہوجائے گا۔ آخری بات اعلی عدالتوں میں وفاداروں کی پنیری لگانے کی بجائے اہلیت رکھنے والوں کی تقرری۔

مزید پڑھیں:  خواجہ آصف کابیان ،گودی میڈیا سیخ پا