ووٹر کے حق کا تحفظ کرنا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، سپریم کورٹ

ویب ڈیسک: مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی جانب سے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلوں پر سماعت سپریم کورٹ میں جاری ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل بنچ سماعت کر رہا ہے۔
سماعت کے آغاز پر سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ کاغذات نامزدگی میں چیئرمین حامد رضا کی سنی اتحاد کونسل سے وابستگی ظاہر ہوتی ہے۔
وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ مخصوص نشستیں ملنے پر کنول شوزب ہماری امیدوار ہوں گی۔ عدالت نے صاحبزادہ حامد رضا کے کاغذات نامزدگی کا پوچھا تھا، کاغذات نامزدگی میں حامد رضا نے وابستگی سنی اتحاد کونسل سے ہی دکھائی تھی۔
اس پر چیف جسٹس نے اس حوالے سے وکیل سے دستاویزات کا مطالبہ کیا، فیصل صدیقی نے بتایا کہ میں دستاویزات بھی دوں گا، الیکشن کمیشن بھی کنفرم کردےگا۔
اس پر جسٹس منیب نے دریافت کیا کہ کیا کاغذات نامزدگی کے ساتھ پارٹی ٹکٹ جمع کرایا گیا تھا؟ وکیل نے جواب دیا کہ پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کرانے سے حامد رضا کو روکا جا رہا تھا الیکشن کمیشن نے زبردستی انہیں آزاد امیدوار کا نشان الاٹ کیا۔
اس موقع پر الیکشن کمیشن کی جانب سے چیئرمین سنی اتحاد کونسل حامد رضا کے کاغذات نامزدگی پیش کر دیے گئے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ہدایت کی کہ حامد رضا کے کاغذات نامزدگی کی کاپیاں کروا کر تمام ججز کو دیں۔
مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن پروگرام الیکشن ایکٹ کے تحت جاری کیا گیا، کاغذات نامزدگی تاریخ سے قبل جمع کروانا ضروری ہوتا، تاریخ میں توسیع بھی کی گئی، 24 دسمبر تک مخصوص نشستوں کی لسٹ کی تاریخ جاری کی گئی، الیکشن کمیشن کنفرم کرے گا، سنی اتحاد نے مخصوص نشستوں سے متعلق لسٹ جمع نہیں کروائی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے دریافت کیا کہ سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت تسلیم کرنے کا نوٹیفکیشن کب جاری ہوا؟
وکیل نے اس پر جواب دیا کہ اس سوال کا جواب الیکشن کمیشن بہتر دے سکتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت کو بتایا گیا ہے کہ کاغذات نامزدگی میں حامد رضا نے سنی اتحاد سے وابستگی ظاہر کی، اگر یہ بات درست ہوئی تو سنی اتحاد کونسل کی پارلیمان میں جنرل نشست ہوگی۔
اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ وابستگی کےلیے پارٹی ٹکٹ کا ہونا ضروری ہے۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ فی الحال حامد رضا کا خط ریکارڈ پر موجود ہے کہ انہوں نے سنی اتحاد کے نشان پر کوئی الیکشن نہیں لڑا، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انتخابی نشان کا پارٹی کی جانب سے انتخابات میں حصہ لینے سے تعلق نہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سوال یہ بھی ہے کہ حامد رضا کو پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے سے کیوں روکا گیا؟ الیکشن کمیشن اس معاملے کی تصدیق کرے تو کیس نیا رخ اختیار کر سکتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان موجود تھا لیکن کسی نے اس پر الیکشن نہیں لڑا۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اپیلوں میں سنی اتحاد نے یہ نکتہ بھی نہیں اٹھایا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ قانون واضح ہے کہ جو نکات اپیلوں میں اٹھائے گئے انہی تک محدود رہیں گے، ججز کا کام کسی فریق کا کیس بنانا یا بگاڑنا نہیں ہوتا۔
وکیل مخدوم علی خان نے دلائل میں کہا کہ متناسب نمائندگی کا اصول جنرل سیٹوں کی تعداد کے مطابق ہوتا ہے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور جے یو آئی سمیت دیگر جماعتوں کو مخصوص نشستیں دی گئیں، پی ٹی آئی امیدواروں کو مخصوص نشستیں دینے کیلئے الگ اصول اپنایا گیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نےکہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس تو ارکان اسمبلی کو آزاد ڈکلیئر کرنے کا اختیار نہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ ووٹر کے حق کا تحفظ کرے، حقائق سب کو کھل کر بتانے چاہئیں۔
وکیل مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ مخصوص نشستیں جمع کروائی گئی لسٹ کے مطابق ہوتی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے سوال اٹھایا کہ جنہوں نے خود کو کاغذات نامزدگی میں تحریک انصاف کا امیدوار ظاہر کیا انہیں الیکشن کمیشن نے کیسے آزاد امیدوار کہا؟۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ آزاد امیدواروں نے پہلے تحریک انصاف نظریاتی ظاہرکیا اور پھر کاغذات نامزدگی واپس لےلی۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن نے کیسے آزاد امیدوار ظاہر کر دیا؟
جسٹس یحیی آفریدی نے ریمارکس دیئے کہ ایک پارٹی سے وابستگی کا ڈیکلریشن جمع کرانے والے بعد میں دوسری جماعت میں چلے گئے، اب ان امیدواروں کے بعد والے فیصلے کو دیکھا جانا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ کسی امیدوار کو اختیار ہی نہیں وہ ایک پارٹی کا ڈیکلیریشن دے کر دوسری میں چلا جائے، میری نظر میں اس بات پر امیدوار نااہل بھی ہو سکتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئینی ادارے الیکشن کمیشن نے ان لوگوں کو 2 فروری کے روز آزاد ڈیکلئیر کر دیا تھا، اس کے بعد ان امیدواروں کے پاس اور کوئی چوائس نہیں تھی۔
واضح رہے کہ گزشتہ سماعت کے حکم نامے کے مطابق سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی اور کنول شوزب کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل مکمل کر لیے۔
پشاور ہائی کورٹ نے انتخابات سے قبل فہرست جمع نہ کروانے پر سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ دینے کے حوالے سےالیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔

مزید پڑھیں:  صحافی برادری کی دل شکنی مقصد نہیں، میڈیاکی تنقید مثبت اندازمیں لیں گے