آپ زندہ کیسے رہتے تھے

ہمارے بچے اکثر یہ پوچھتے ہیں کہ آپ کے بچپن میں تو نہ موبائل تھا نہ انٹرنیٹ، نہ تو آپ آڈیو کال کرسکتے تھے اور نہ ہی ویڈیو کال، آپ کو تو ای میل یعنی برقی خط کی سہولت بھی میسر نہ تھی، تو پھر آپ زندہ کیسے رہتے تھے، اور دادا، دادی اور نانا، نانی کے پاس تو فریج بھی نہیں تھا، کیا وہ ٹھنڈا پانی نہیں پیتے تھے، وہ کپڑے کیسے دھوتے تھے جب ان کے پاس کپڑے دھونے کی مشین ہی نہیں تھی، آپ اے سی کے بغیر کیسے رہ لیتے تھے، لیپ ٹاپ بھی نہیں ہوتے تھے تو آپ لوگ کام کیسے کرتے تھے، کیلکولیٹر کے بغیر حساب کتاب کیسے کرتے تھے، امی کے پاس کچن میں جوسر بھی نہیں ہوتا تھا، کیا آپ لوگ جوس نہیں پیتے تھے، آپ کی کیا زندگی تھی کہ نہ برگر کھاتے تھے اور نہ ہی چاکلیٹ، آپ کیسے زندہ رہتے تھے کہ آپ کے پاس اپنی گاڑیاں بھی نہیں تھیں، ہم گوگل کی مدد سے سارا کام ایک منٹ میں کرلیتے ہیں، آپ گوگل کے بغیر کیسے زندہ رہتے تھے، اپنے بچوں کو ہمارا جواب یہ ہوتا ہے کہ ہم نہ صرف زندہ رہتے تھے بلکہ بہت اچھی زندگی گزارتے تھے، پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو اس بات پر افسوس نہیں ہوتا کہ وہ سب اب رہا نہیں ہے، کیونکہ رہنا تو کچھ بھی نہیں ہے، لیکن افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ نئی نسل اُس سب سے محروم ہے جو ہمیں میسر تھا، چیزیں اب زیادہ ہیں پہلے کم تھیں لیکن پہلے اتنی تھیں کہ جتنی ضرورت تھی ، اور چیزیں ہمارے لئے تھیں نہ کہ ہم چیزیں کے لئے، آبادی میں بے ہنگم اور بے لگام اضافے نے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں کے حسن کو ماند کر کے کہ ختم ہی کردیا ہے، ہمارا دور سادگی کا دور تھا، ہر بات میں سادگی تھی، سادہ لباس، سادہ کھانے، سادہ رہن سہن، سیدھے سادھے لوگ، ماحول صاف ستھر ا تھا، فضائی آلودگی سے ہم ناآشنا تھے، صوتی آلودگی کا نام بھی نہ سنا تھا، شمالی علاقہ جات کی خوبصورتی کی کیا ہی بات تھی، دریا، نہریں، ندی، نالوں اور جھیلوں کا پانی صاف شفاف تھا، ہر رنگ کا موسم ہمیں میسر تھا، مجھے یاد ہے سردیوں میں ایک ایک ہفتے تک بارش جاری رہتی تھی، بہار کا موسم موجود تھا، ہر چیز خالص تھی، خالص دودھ میسر تھا، ہمارے گھر میں ہی اس سے دہی، لسی، مکھن اور گھی بنتا تھا، ہم نے کبھی لوڈ شیڈنگ دیکھی تھی اور نہ ہی اس کا نام سنا تھا، رشتے اور تعلقات بھی خالص تھے، دکھاوا کم تھا، بزرگ، مائیں، بہنیں اور بیٹیاں سانجھی تھیں، محلے کے کسی بچے کی مجال نہ تھی کہ کسی بزرگ کی بات نہ مانے یا ان سے بدتمیزی کرے، بڑوں کے سامنے سگریٹ پینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، سادے کھلے کھلے گھر ہوتے ہیں، ہمسایوں کے ساتھ پیار، محبت، احترام اور ہمدردی کا رشتہ ہوتا تھا، جو بھی بنتا تھا ہمسایوں کو ضرور بھیجا جاتا تھا، چاہے ٹاٹوں پر بیٹھتے تھے لیکن صحیح معنوں میں پڑھائی ہوتی تھی، استاد کا ایک خاص مرتبہ اور مقام تھا، اور اس سے بڑھ کا ان کا احترام تھا، چھوٹی سے چھوٹی کوتاہی اور غلطی پر کسی نہ کسی کا خوف رہتا تھا کہ اب پوچھا جائے گا، جواب دینا ہوگا، کھانے پینے کی کوئی چیز ہم نہ ضائع کرتے تھے اور نہ ہی زمین پر گرنے دیتے تھے، شادی ہال کا کوئی تصور نہ تھا، گھروں میں، یا کسی میدان یا سکول میں ولیمے کا سادہ سا کھانا دیا جاتا تھا، سارے گاؤں یا محلے کے علم میں تھا کہ غریب اور ضرورت مند کون ہیں اوران کا خاص خیال رکھا جاتا تھا، مجھے اچھی طرح یاد ہے پشاور صدر چوک فوارہ میں مشہور حکیم و ڈاکٹر یوسف صاحب ایک ہی سرنج سے ایک ہی دن میں کئی مریضوں کو ٹیکے لگایا کرتے تھے لیکن کبھی کسی کی بیماری کسی اور کو نہ لگتی تھی، جب بڑے دم کرتے تھے تو ان کے دم میں اثر ہوتا تھا اور تکلیف دور ہو جایا کرتی تھی، ہم اُس دور میں زندہ رہتے تھے کہ جب ہر دن ڈاکیے کا انتظار کیا جاتا تھا، خط والے ڈبے کو بار بار کھول کر دیکھا جاتا تھا، کئی لوگ خط پڑھ بھی نہ سکتے تھے اور ڈاکیا ان کے خط پڑھ کر ان کو سناتا اور اعتبار ایسا تھا کہ گھر کے ایک فرد کی طرح وہ بھی سارے حال احوال سے واقف ہوتا تھا، نہ صرف خط پڑھتا بلکہ جواب بھی دیتا تھا، اس کی خوب سیوا کی جاتی تھی، دکھ درد اور خوشیوں میں سب شریک ہوتے تھے، آج تو خود غرضی کا یہ عالم ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ ساتھ والے گھر میں کیا ہو رہا ہے، ہم اس دور میں رہتے تھے کہ جب میت والے گھر میں سارے محلے دار سچے دل سے روتے تھے، اور اسی نیک نیتی سے دوسروں کی خوشیوں میں بھی شریک ہوتے تھے، ایک دوسرے کے گھروں میں کھانا بھیجنے کا رواج عام تھا، قسم قسم کی بیماریاں نہیں تھیں اور اس کی ایک وجہ تو خالص خوراک تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس میں بڑا کردار سائیکل کا بھی ہوتا تھا، ہر گھر میں سائیکل ہوتی تھی، ہر گلی محلے میں سائیکل والے کی دکان ہوتی تھی، ہر وقت کوئی نہ کوئی قمیص کا کونا منہ میں دبائے سائیکل کے ٹائروں میں ہوا بھرتا نظر آ تا تھا، آج کے مقابلے میں ہر چیز کم تھی، لیکن ہر چیز میں برکت تھی، چاہے وہ وقت تھا، رزق تھا، رشتے تھے، معاملات تھے، کاروبار تھے یا کوئی بھی بات تھی، سب کچھ کرنے کے بعد بھی سب کے پاس وقت ہی وقت تھا، گلیوں میں چارپائیاں بچھی ہوئی ہوتی تھیں اور محلے کے بزرگ حقہ پیتے اور پرانے بزرگوں کے واقعات بیان کر تے تھے، محلے کی کسی ایک آدھ گھر میں ٹی وی ہوتا تھا اور مجھے یاد ہے ہم جہاں بھی ٹی وی دیکھنے جاتے تھے ہمیں خوش آمدید کہا جاتا تھا اور خدمت بھی کی جاتی تھی، کسی گھر میں ڈپریشن، سردرد، بلڈ پریشر، نیند اور ملٹی وٹامنز کی کوئی گولیاں نہیں ہوتی تھیں، بچے بہت باادب ہوا کرتے تھے، ان کے پاس موبائل نام کی کوئی شے نہیں ہوتی تھی، نہ تو موبائل کے فوائد سے انکار ہے اور نہ ہی اب اس سے مفر، یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پچھلی صدی کی سب سے بہترین اور بدترین ایجاد موبائل فون ہے، لیکن ہمارے لئے تو شاید یہ ایک عذاب بن کر ہی آیا ہے، ہم نے اس کا درست استعمال نہیں کیا کہ جب ہم ایک چھ ماہ کے بچے کو بہلانے کے لیے موبائل کی سکرین کا سہارا لیتے ہیں، ہمارے نوجوانوںکو آج جن بڑے بڑے مسائل کا سامنا ہے ان میں سے نیند کی کمی ایک اہم بیماری کے طور پر سامنے آئی ہے، جو موبائل فون کے بے جا استعمال سے ہوتی ہے، بلکہ اس موبائل کی وجہ سے تمام عمر کے لوگوں کو نظر، گردن اور ریڑھ کی ہڈی کے مہروں کے مسائل کا بھی سامنا ہے،موبائل ہمارے لئے ایک نیا نشہ بن گیا ہے کہ ہر کوئی اس کا شکار ہے، بچوں پر اس کے اثرات بڑوں کے مقابلے میں ہر لحاظ سے زیادہ ہیں، زیادہ وقت موبائل کا استعمال کرنے سے بچے آس پاس کے لوگوں میں کم گھلتے ملتے ہیں، جس سے ان کو رویوں کا احساس نہیں ہو پا رہا اور اسی لئے ہم سے پوچھتے ہیں کہ آپ موبائل کے بغیر کیسے زندہ رہتے تھے۔

مزید پڑھیں:  ووٹ کو عزت دو؟؟