قرض کی منظوری

ایک مرتبہ پھر دوست ممالک چین ، سعودی عرب اور یو اے ای کی جانب سے معاشی اعانت اور دستگیری کے بعدآ ئی ایم ایف نے وصولی کے اطمینان کے بعد پاکستان کے لئے قرضے کی منظوری دے دی ہے عالمی مالیاتی ادارے کے ایگزیکٹو بورڈ نے 1.1 ارب ڈالر کی پہلی قسط جاری کر رہی ہے پاکستان کے لئے محولہ قرض پروگرام 37ماہ پر محیط ہو گا۔اگر چہ عوامی سطح پر اور واضح انداز میں معاشی بہتری کے اثرات و ثمرات سوالیہ نشان ہیں لیکن اعداد و شمار اور مختلف رپورٹس میں ملک کے معاشی بحران اور مہنگائی میں مسلسل کمی آنے کے دعوے سامنے آرہے ہیں عوامی نقطہ نظر سے تو ان دعوئوں کو رد کرنے کی وجہ اور گنجائش موجود ہے لیکن بہرحال ان رپورٹس کو تکنیکی اور حقیقی طور پر مسترد کرنے کا کوئی جواز نہیں جیسا کہ مختلف وجوہات کی بنیاد پر اس طرح کا رواج اور معمول ہے ایشیائی ترقیاتی بینک نے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)کے قرض پروگرام کے تحت اصلاحات کے نتیجے میں پاکستان میں مہنگائی کم ہوئی ہے اور معاشی ترقی میں اضافے کا امکان ہے۔ستمبر کے لیے ایشیائی ترقیاتی بینک کی طرف سے جاری آٹ لک رپورٹ میں کہا گیا کہ مالی سال 24 -2023 میں پاکستان کی شرح نمو 2.4 فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے جبکہ گزشتہ سال آئی ایم ایف کی طرف سے فراہم کیے گئے 3 ارب ڈالر کے قلیل مدتی قرض نے ملکی میں معاشی استحکام لانے میں مدد کی ہے۔ تاہم مشکل امر یہ ہے کہ پاکستان کے بڑے پیمانے پر بیرونی مالی ضرورت کے انحصار کی وجہ سے اس کی اقتصادی صورتحال بیرونی آمدنی میں کسی بھی کمی کے باعث غیر یقینی کا شکار ہے جس سے کثیر الجہتی اور دو طرفہ شراکت داروں سے بروقت رقوم کی فراہمی انتہائی اہمیت کی حامل ہو جاتی ہے۔علاوہ ازیں پالیسی کے نفاذ میں کوتاہیاں کوئی پوشیدہ امر نہیں جو آمدن کے امکانات کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں جس سے شرح تبادلہ پر دبائو بڑھ سکتا ہے۔صرف معاشی مسائل ہی پیچیدہ اور مشکل امر نہیں بلکہ بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی، ادارہ جاتی تنائو کے باعث بھی مشکلات کا سامناہے۔ماہرین کے مطابق پاکستان کے لیے بیرونی طور پر سب سے بڑا خطرہ جغرافیائی سیاسی تبدیلیاں ہیں جن میں خوراک اور تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے ملکی معیشت پر اثرات ہیں۔امر واقع یہ ہے کہ ملکی معیشت اور معاشی حالات کا انحصار مختلف قسم کی صورتحال پر منحصر ہوتا ہے بنا بریں اس حوالے ے کوئی حتمی بات تو نہیں کہی جا سکتا البتہ حوصلہ افزاء امر یہ ہے کہ پاکستان نے مارکیٹ میں مقررہ کردہ شرح تبادلہ کو حاصل کرنے کے لیے پیش رفت کی ہے۔نیز مرکزی بینک نے درمیانی مدت میں مہنگائی کے 5 سے 7 فیصد کے ہدف تک پہنچنے کے لیے سخت مانیٹری پالیسی کو برقرار رکھا۔یہ مساعی اپنی جگہ لیکن یہ کوئی بڑی اور مستحکم کامیابی کے زمرے میں شمار نہیں ہوتے بلکہ اصل مسئلہ قرضوں کا حصول اور ان کی سود سمیت ادائیگی ہے اس دوران تمام مشاہدے کی بات یہ ہے کہ مالیاتی بل میں کیے جانے والے اقدامات کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہو سکتا ہے جس میں کچھ اشیا پر اضافی سیلز ٹیکس اور توانائی کے شعبے میں لاگت کی وصولی کو یقینی بنانے کے لیے توانائی کے ٹیرف میں کی جانے والی بنیادی ایڈجسٹمنٹس شامل ہیں۔چونکہ اس امر کا امکان غالب ہے اور ہر بار یہ اس کا تجربہ بھی ہے اور درپیش بنیادی وسنگین مسئلہ بھی یہی ہے اور عوام بھی اسی کے منتظر رہتے ہیں کہ مہنگائی میں کمی آئے لیکن حکومت اس ضمن میں صرف تہی دست ہی نہیں بلکہ ان کی ساری چارہ دستی ہی عوام پر بوجھ ڈالنے اور عوام سے وصولی کرکے قرضوں اور سود کی ادائیگی ہے حکومت اور بیورو کریسی خود قربانی دینا تو درکنار اپنے اخراجات کو موجودہ حد تک بھی رکھنے کو تیار نہیںبلکہ بجٹ میں بھاری اضافہ کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے یوں ملنے والے قرض کی رقم الگ سے ضائع ہونے اور ملک و قوم کے بوجھ میں مزید اضافہ کا امکان ہے جبکہ وزیر اعظم کا دعویٰ برعکس اور روایتی ہے جس کی ناکامی اور پورا نہ ہونے کا اگر ابھی سے قوی امکان ظاہر کرکے مایوسی اور عدم اعتماد کااظہار کیا جائے تو اس کا امکان موجود ہے۔آخرہر بار محولہ دوست ممالک ہی کا دامن تھامنے کی ضرورت کیوں پڑتی ہے حصول قرض کے وقت حکومت جو دعویٰ کرتی ہے وہ کبھی بھی کیوں نہیں پورے ہوئے خدا کرے وزیر اعظم کی جانب سے اس پروگرام کو آئی ایم ایف کا آخری پروگرام قرار دینے کی امید بر آئے اور حکومت کو کچھ عرصہ بعد آئی ایم ایف کا در کھٹکھٹانے کی پھر ضرورت نہ پڑے ۔سنجیدہ مساعی کی جائیں تو یہ ناممکن بھی نہیں کیونکہ قبل ازیں بھی ایک مرتبہ پاکستان کا آئی ایم ایف پروگرام کامیابی سے مکمل کرکے اسے خدا حافظ کہنے کی مثال موجود ہے جس کے بعد ملک میں قابل ذکر معاشی استحکام آیا تھا مگرپھر ملک کو مداخلت اور سیاسی تقطیب کی بھینٹ چڑھایا گیا جس کا نتیجہ اس وقت سامنے ہے ملکی حالات کو ساز گار بنانے کی مشترکہ سعی اور قومی جدوجہد کے ذریعے دوبارہ بھی ایسا ہونا ناممکن تو نہیں مگر فی الوقت کے حالات میں اس کی توقع کم ہی ہے ۔

مزید پڑھیں:  پھلوں کی دکان پرسجے چھلکے