ایس۔سی۔ او اجلاس اور پاکستان و ہندوستان

پاکستان اور ہندوستان سرحد پار دہشتگردی کے شدید الزامات کیساتھ ایک بار پھر رواں ماہ کی 15 اور 16 تاریخوں کو اسلام آباد میں ہونیوالے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس۔سی۔ او شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن ) کے 23ویں کونسل آف ہیڈ زآف گورنمنٹ (سربراہان حکومت کونسل ) اجلاس میں ایک دوسرے کیخلاف صف آرا ء دکھائی دیتے ہیں۔ ایس سی او وزرائے خارجہ اجلاس منعقدہ بھارتی ریاست گوا برائے سال 2023ء میں اس نوعیت کے الزامات کے تبادلے کا پہلا راؤنڈ ہو چکا ہے۔ اس وقت پاکستان کی نمائندگی ملک کی تاریخ کے سب سے کم عمر لیکن سفارت کاری کا موروثی ذہن رکھنے والے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کی تھی۔ہندوستان کے ایک نہایت تجربہ کار سفارت کار اور راجیہ سبھا کے رکن ڈاکٹر سبرا منیم جے شنکر اس وقت بھی وزیر خارجہ تھے اور اب بھی میزبان ملک پاکستان میں ہندوستان کی نمائندگی کریں گے جبکہ تجارت صنعت و حرفت اور مالی امور کا وسیع تجربہ رکھنے والے سینیٹر اسحاق ڈار ڈپٹی وزیراعظم اور وزیر خارجہ ایس سی او کے اجلاس میں پاکستان کی خارجہ امور کی ٹیم کے سربراہ ہوں گے ۔وزیراعظم شہباز شریف سربراہ حکومت کی حیثیت سے پاکستان کی نمائندگی کریں گے۔ وزیراعظم ہندوستان نریندرا مودی اس اجلاس سے جان بوجھ کر غیر حاضر ہیں۔ پاکستان کو ایس۔سی۔او کی کونسل برائے سربراہان حکومت کی سربراہی سال 2024ء بشکیک کرغیزستان میں ہونیوالے ایس۔سی۔او کے سربراہان حکومت اجلاس 2023ء میں دی گئی تھی، جس کا دہ روزہ اجلاس 15 و 16 اکتوبر کو ہورہا ہے۔ چین اور روس کی طاقتور چھتری تلے 1996 ء میں قائم ہونیوالی شنگھائی 5کی کوکھ سے 2001ء میں جنم لینے والی ایس سی او کے بنیادی اغراض و مقاصد بہت واضح حدتک اپنی ممبر ریاستوں کے مابین معاشی اور غیر رسمی سیکورٹی تعاون پر مبنی ہیں۔دیگر لفظوںمیں ایس۔سی۔او علاقائی تعاون کی ایک ایسی شکل ہے جس کا دائرہ اس کے چارٹر کے مطابق غیر رسمی سیکورٹی تعاون کے حوالے سے صرف دہشتگردی، علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی کے قلع قمع کرنے تک محدودہے، جس کیلئے ممبر ریاستیں مل جل کر بھی کارروائی کر سکتی ہیں اور انفرادی سطح پرمعلومات کا تبادلہ بھی کر سکتی ہیں۔ لیکن یہ معاہدہ شمالی اوقیانوس (نیٹو) کی طرح کا کوئی فوجی بلاک نہیں ہے۔ یورپ و ایشیاء (یوریشیا) کے 80 فیصد زمینی رقبے، دنیا کی 40 فیصد آبادی، 30فیصد بین الاقوامی قومی پیداوار ،تیل و قدرتی گیس سے مالامال اپنے سیاسی و تنظیمی ڈھانچے میں چار ایٹمی طاقتوں اور اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے دو مستقل ممبران کو سموئے یوریشیا کے خطے کی شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن بدلتے ہوئے بین الاقوامی اسٹریٹیجک نقشے پر ایشیا اور یورپ کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتی ہے۔اپنے 9 مستقل 4 مبصر اور 14 مکالماتی ہم نشینوں (ڈائیلاگ پارٹنرز )کی یہ تنظیم اقوام متحدہ میں مبصر کا درجہ رکھتی ہے جس سے اس کے سیاسی و معاشی حجم کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ایس سی او میں پاکستان اور ہندوستان کی شمولیت کی کہانی خاصی زیادہ علاقائی و بین الاقوامی سفارتی سیاست کے گر پیچوں سے عبارت ہے۔برصغیر کے دونوں ایٹمی حریفوں نے 2005 ء میں ایس سی او کی ممبرشپ کیلئے درخواست دی تھی۔اس تنظیم کی متحرک قوتوں چین اور روس کو چھوڑ کر باقی وسطی ایشیاء ریاستیں اپنے خطے سے باہر کے ملکوں کو اس تنظیم کا حصہ بنانے پر تیار نہیں تھیں۔اس کی جغرافیائی وجہ پاکستان اور ہندوستان کا جنوبی ایشیاء میں واقع ہونا اور ثانوی وجہ ان کی آپس کی چپقلشیں تھیں۔ 12 سالوں کے طویل صبر کے بعد2017ء میں پاکستان اور ہندوستان دونوں کو ایس سی او کی مستقل رکنیت دیدی گئی اس سے نہ صرف ایران بلکہ افغانستان ، بیلاروس ، منگولیا اور دیگر ریاستوں کیلئے بھی ایس سی او کی مبصر اور مستقل ممبر شپ حاصل کرنے کے دروازے کھل گئے۔ ایس سی او کے اندر پاکستان اور ہندوستان کی دلچسپی اور اہداف ومقاصد ملے جلے سے ہیں۔ ہندوستان کو ایس ای او کی وجہ سے معاشی اور سماجی تعلقات کے ذریعے وسطی ایشیاء کے اندر پیر رکھنے کی جگہ مل جاتی ہے ـدیگر لفظوں میں ہندوستان وسطی ایشیاء کا ایک اسٹریٹیجک پڑوسی بن جاتا ہے۔
۔اسی طرح پاکستان کو ایس یو او میں شمولیت کے بعد اپنے ماضی کے تفاخر کی تہذیب سے وسطی ایشیاء میں دوبارہ جڑ جانے کا موقع ملتا ہے جس کے نتیجے میں وہ یہاں موجود معاشی ، قدرتی اور دیگر ذرائع بشمول سیکورٹی تعاون حاصل کر سکتا ہے اس کیساتھ ساتھ پاکستان اپنی جغرافیاء حیثیت کا فائدہ اٹھا کر وسط ایشیا اور بیرونی دنیا کے مابین ایک پل کا کام دے سکتا ہے پاکستان ایس سی او کے ذریعے اپنی بین الاقوامی سفارتی تنہائی کے خوف سے بھی نجات حاصل کر سکتا ہے۔ایس سی او کی کونسل آف ہیڈز آف گورنمنٹ کے 23 دو روزہ اجلاس کا کوئی بہت واضح ایجنڈا میزبان ملک پاکستان نے جاری نہیں کیا ہے صرف ان وسیع موضوعات (براڈر تھیمز)کے بارے میں دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے بتایا ہے جن کا تعلق معیشت ، تجارت ، ماحولیات ،سماجی و ثقافتی تعاون سے ہے۔ان کے مطابق سربراہان حکومت کا اجلاس ایس سی او کی کارکردگی کا جائزہ بھی لے گا ، کچھ اہم تنظیمی فیصلے کرے گا جن کا تعلق تعاون کے مزید فروغ سے ہے اور بجٹ کی منظوری بھی دے گا۔اس ایجنڈے کو اگر برصغیر کے تناظر میں دیکھا جائے تو مسئلہ کشمیر ،اس میں آج کل جاری الیکشن اور کشمیر کی آیئنی حیثیت کو 2019ء سے پہلے کی پوزیشن پر لے جانا بنیادی اہمیت کے نکات ہیں جو کہ ایس سی او کے چارٹر میں دیے گئے مقاصد سے عین ہم آہنگ ہیں۔ پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار یقینی طور پر مسئلہ کشمیر کے حل اور ہندوستانی مقبوضہ کشمیر کو 2019ء سے پہلے کی پوزیشن پر لے جانے پر زور دے کر بات کریں گے۔ غالب امکان یہ ہے کہ پاکستان اور انڈیا کشمیر اور سرحد پار دہشتگردی کے حوالے سے شدید لفظی جنگ میں آجائیں گے۔ پاکستان جو کہ بدترین معاشی بحرانوں کی زد میں ہے اور دو روز قبل ہی برادر اسلامی ملک سعودی عرب کیساتھ 27 کے قریب معاشی مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کر چکا ہے دیکھنا یہ ہے کہ یہ کس طرح ایس سی او کی سربراہان حکومت کونسل کی میٹنگ میں اپنے لئے معاشی بحرانوں سے نکلنے کا کوئی راستہ ممبران سے مل کر نکالتا ہے۔

مزید پڑھیں:  درسی کتب کی مفت فراہمی میں مشکلات