شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس

اسلام آباد میں شروع ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کرنے والے ممالک میں چین، بھارت، روس، پاکستان، ایران، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ازبکستان اور بیلاروس شامل ہیں جبکہ اس کے ساتھ ساتھ 16 مزید ممالک مبصر یا ڈائیلاگ پارٹنرز کے طور پر وابستہ ہیں۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق سربراہی اجلاس میں چین، روس، بیلاروس، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان کے وزرائے اعظم شرکت کریں گے جبکہ ایران کے اول نائب صدر ڈاکٹر محمد رضا عارف اور بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر بھی اجلاس میں شریک ہوں گے۔ اس کے علاوہ مبصر ملک منگولیا کے وزیراعظم، ترکمانستان کے چیئرمین وزراء کابینہ بھی کانفرنس کا حصہ ہوں گے۔ایک ایسے وقت میں جب پاکستان اپنے معاشی مشکلات سے نکلنے کی جدوجہد میں ہے ایسے میں حسن اتفاق اسے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہان حکومت کی سربراہی اجلاس کی میزبانی کا زریں موقع ملا ہے اس کانفرنس کا بین ا لاقوامی سطح پر سفارتی تعلقات کو مزید مربوط بنانے کا بھی ایک ذریعہ بننا فطری امر ہے اس کانفرنس کے انعقاد کے لئے پاکستان کی تیاریوں اور اس کا بحسن و خوبی انعقاد بڑی ذمہ داری بھی ہے ۔اس موقع پر سیکورٹی کے غیر معمولی انتظامات نظر آتے ہیں جس میں فوج بھی شریک ہے سربراہی اجلاس کے موقع پر فطری طور پر پاکستان کی توجہ علاقائی سطح پر انفراسٹرکچر اور معاشی روابط کو مضبوط کرنے پر ہو گی تجارت اور سرمایہ کاری کے مواقع کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ رکن ممالک کے درمیان معاشی ترقی کی رفتار بڑھانے کی کوشش کی جائے گی تاکہ باہمی افہام و تفہیم او ر تعاون کو فروغ دیا جا سکے ۔ یہ سربراہی اجلاس پاکستان کو ایک پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے جس کے ذریعے وہ عالمی سطح پر اپنی حیثیت کو مضبوط کر سکتا ہے اور علاقائی تعاون میں اپنی قیادت کا کردار نمایاں کر سکتاہے مضبوط معاشی روابط اور سرمایہ کاری کے بڑھتے مواقع کو پاکستان کی معاشی ترقی کے لئے محرک ثابت ہو سکتے ہیں اس اجلاس کی میزبانی خطے میں ثقافتی ہم آہنگی کو فروغ دے گی اور سماجی روابط کو مضبوط کرے گی۔ایک مکمل رکن کے طور پر پاکستان کو اب ایس سی او کے وسیع امکانات تک رسائی حاصل ہو گئی ہے جس میں تجارت ، سلامتی اورتوانائی میں تعاون میں اضافہ خاص طور پر قابل ذکر ہیںمزید برآں مکمل رکنیت نے پاکستان کو توانائی کے منصوبوں جیسے کہ (ترکمانستان ، افغانستان ، پاکستان ، بھارت گیس پائپ لائن اور کاسا 1000 بجلی کی ترسیل کے منصوبے کو آگے بڑھانے کا بھی موقع مل رہا ہے چین اگرہ شنگھائی تعاون تنظیم کے ذریعے یورپ اور ایشیائی اتحاد کو آگے بڑھا رہا ہے یہ اندرونی تبدیلیاں شنگھائی تعاون تنظیم کے اندر کثیر الجہتی شمولیت کی پیچیدگی پر زور دیتے ہیں کیونکہ مسابقتی ملک کے مفادات اتفاق رائے کی تعمیر میں رکاوٹ بن سکتے ہیں ان رکاوٹوں کے باوجود ترقی کے لئے اب بھی کافی گنجائش موجود ہے ۔پاکستان دنیا کا ایک اہم ملک ہے گو کہ ایس سی او اجلاس ہر سال ایک رکن ملک میں ہوتا ہے لیکن اس اجلاس کے پاکستان میں منعقد ہونے سے پاکستان کی اہمیت بڑھے گی یہ اجلاس سربراہان حکومت کا اجلاس ہے جس میں معیشت پر بات چیت ہوگی لیکن پاکستان کو دہشت گردی کے جس چیلنج کا سامنا ہے اس کو اس کو بھی فورم پر اٹھایا جاسکتا ہے موجودہ صورتحال کے تناظر میں شنگھائی اسپرٹ کا مطلب یہ بیان کیا جارہا ہے کہ دنیا کا نظام جس میں شنگھائی تعاون تنظیم کی نمائندہ حیثیت ہوگی باالفاظ دیگر کمزور ممالک کے حقوق کو طاقت کے زور پر سلب اور ان کو مغلوب نہیں کیا جائے گا باہمی اعتماد اس کا بنیادی ستون ہے اور اس باہمی اعتماد کی بدولت یہ ممالک مل کر اس نوعیت کی پالیسیاں تشکیل دیں گے کہ جس سے باہمی فائدے کے دروازے سب کے لئے وا ہو جائیں ایک دوسرے کے باہمی مشاورت سے اور ایک دوسرے کی ہر قسم کی ثقافت کا احترام کرتے ہوئے مساوات اور مشترکہ ترقی کو مل کر تلاش کیا جائے ۔پاکستان کو معاشی خوشحالی کی جانب گامزن کرنے کا تقاضا ہے کہ علاقائی ریاستوں اور پڑوس کے بڑے ممالک کے درمیان شراکت داری کو فروغ دیا جائے اورعلاقائی سطح پر تجارت اور اقتصادی سطح پر تجارت اور اقتصادی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی ہو۔اس موقع پرشنگھائی تعاون تنظیم کے ساتھ مل کر پاکستان کو بھی بی آر آئی سی ایس کی مکمل رکنیت کے لئے کوشش کرنی چاہئے جس کے لئے اس نے درخواست دی ہے اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو اپنے تجارتی افق کو وسعت دینے اور خارجہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے دیگر علاقائی بلاکس کو شامل کرنا چاہئے کسی زمانے میں پاکستان ترقی پذیر ممالک اور مسلم دنیا کی ایک بڑی آوازہوا کرتا تھا لیکن اندرونی کمزوریوں بالخصوص معاشی پستی کی وجہ سے ہمارا بین ا لاقوامی قد بہت کم ہو گیا ہے اب اس پوزیشن کی بحالی کی جدوجہد ضروری ہے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کا کامیاب انعقاد اس بات کا اشارہ دے گا کہ عالمی سطح پرپاکستان کی حیثیت بحال ہو چکی ہے۔

مزید پڑھیں:  ڈاکٹر ذاکر نائیک کادورہ پاکستان