پولیس ترمیمی ایکٹ اسمبلی میں پیش

پولیس ترمیمی ایکٹ اسمبلی میں پیش نہ کرنے کا فیصلہ

ویب ڈیسک: خیبر پختونخوا حکومت پولیس سے اختیارات وزیر اعلی کو منتقل کرنے کا فیصلہ ایک ہفتہ بھی برقرار نہیں رکھ سکی، اور معاملہ اس کے برعکس نکلنے لگا ہے، کابینہ میں منظور ہونے والے پولیس ترمیمی ایکٹ اسمبلی میں پیش نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
پولیس افسروں کی مشاورت سے تیار کردہ نیا ترمیمی مسودہ صوبائی کابینہ میں پیش کیا جائے گا۔ خیبر پختونخوا حکومت نے کابینہ اجلاس میں پولیس ترمیمی ایکٹ کی منظوری دی تھی، جس کے مطابق گریڈ 18اور اس سے اوپر کے افسروں کے تبادلوں کو اختیار وزیر اعلیٰ کو منتقل کیا گیا تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ پولیس کے حوالے سے عوامی شکایات کیلئے کمپلینٹ اتھارٹی سنٹرز کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔ پولیس کی خود مختاری ختم کرتے ہوئے اسے صوبائی حکومت کے ماتحت کیا گیا تھا تاہم ایک ہفتے میں بعض پولیس افسروں کی دھمکیاں کام کر گئیں۔
ان افسروں نے سپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی کو اعتماد میں لیتے ہوئے صوبائی حکومت کو نیا ترمیمی مسودہ لانے پر راضی کرلیا ہے اور نیا ترمیمی مسودہ بھی تیار کرلیا گیا ہے، جس کے مطابق وزیر اعلی سے اختیار واپس لے لیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق پولیس ایکٹ سیکشن 9 کے تحت وزیر اعلیٰ سے اختیار واپس لے لیا گیا ہے۔ ریجنل پولیس آفیسر اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسرز کے تقرر اور تبادلوں کے لئے سمری بھجوائی جائے گی۔
ایڈیشنل انسپکٹر جنرل اور اندرونی پوسٹنگ ٹرانسفر کا اختیار آئی جی پولیس کو حاصل ہوگا، پبلک سروس کمیشن میں ارکان قومی اور صوبائی اسمبلی شامل ہونگے۔ پبلک سیفٹی کمیشن کے ممبران کی تعداد 3 کی بجائے 5 اور دورانیہ 3 سے بڑھا کر4 سال کردیا گیا ہے۔
ترمیمی مسودے کے مطابق سیفٹی کمیشن کے آزاد ممبر کو حکومت نامزد کرے گی، باقی ممبران پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین اور صوبائی محتسب نامزد کریں گے۔ کمپلینٹ اتھارٹی اب سینٹر کی بجائے اب ریجن کی سطح پر ہوں گے، اتھارٹی سینٹر کے 5 ممبران ہوں گے پولیس کا تمام آپریشن کا سسٹم پہلے کی طرح بااختیار ہوگا۔
یاد رہے کہ کابینہ میں منظور ہونے والے پولیس ترمیمی ایکٹ اسمبلی میں پیش نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں:  خیبرپختونخوا میں سینیٹ الیکشن کیوں نہیں کرا رہے؟، پشاور ہائی کورٹ