صدی کا آخری موقع

سوویت یونین کے غیر فطری نظام کو زوال آنا ہی تھا۔ سو وہ1991میں آگیا۔ اور سوویت یونین کاشیرازہ بکھرگیا ۔ کئی مقبوضہ ممالک اس کے پنجوں سے آزاد ہوکر آزاد فضائوں میں سانس لینے لگے۔سوویت یونین روس تک محدود ہو کے رہ گیا۔ان آزاد ہونے والی ریاستوں میں وسط ایشیا کی کئی مسلم ریاستوں کے علاوہ کئی غیر مسلم ریاستیں بھی شامل تھیں۔یوکرائن بھی انہی میں شامل تھا۔
زخموں سے چور اور مضمحل روس اور طاقت کے نشے میں چور امریکہ کے درمیان 1994 میں ایک معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت یوکرائن سے سارے ایٹمی ہتھیار ہٹا دیئے گئے۔ امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک نے اس کی حفاظت کی گارنٹی کا جھانسہ دیا لیکن عملًا وہ کسی بھی حملہ آور کیلئے آسان شکار بن گیا ۔اور اس طرح دنیا کی تاریخ میں وہ پہلا ملک بن گیا جو اپنے ہتھیار دوسروں کے حوالے کرکے ان سے اپنی حفاظت کی توقع رکھتا ہے ۔بات یہاں تک محدود رہتی تو پھر بھی کوئی بات تھی۔لیکن امریکہ حسب معمول اپنی شیطانی حرکتوں سے باز نہیں آیا اور روس کی سرحدوں پر موجود یوکرائن کو اپنے مورچے میں تبدیل کرنے کے کوششیں شروع کردیں۔تاکہ روس کیلئے مستقل درد سر پیدا کیا جا سکے ۔ روس نواز یوکرائنی صدر نے ان منصوبوں میں آلہ کار بننے سے انکار کر دیا تو اپنی تاریخ دہراتے ہوئے امریکہ نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے یوکرائن میں ڈالروں کے زور پر فسادات اور مظاہرے شروع کرا دئیے۔جس کے نتیجے میں روس نواز یوکرائنی صدر وکٹر یوشچنکو ملک چھوڑنے پر مجبور ہوے۔ اور امریکی حمایت یافتہ ایک مزاحیہ اداکار ولادیمیر ذیلنسکی ملک کے صدر بن گئے۔وہ پوری طرح امریکہ کی گود میں اترتا چلا گیا ۔ بالآخر وہی ہوا جو تاریخ میں ہمیشہ ہوتا آیا ہے۔پیوٹن کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا ۔ روسی فوجیں یوکرائن میں داخل ہوکر ایک بڑے حصے پر قابض ہو چکی ہیں۔اور اب یوکرائن کے دارالحکومت کیف کی طرف آگے بڑھ رہی ہیں۔دارالحکومت کیف کے مختلف اہم مقامات اور انفرا سٹرکچر تباہ ہو چکے ہیں۔امریکی اسلحہ سے مسلح یوکرائنی فوج معقول مزاحمت کر رہی ہیں۔لیکن اس مزاحمت کا کیا فائدہ جس کا آخری انجام پہلے سے معلوم ہے ۔ یعنی یوکرائن کی مکمل تباہی ۔ پیوٹن اپنے کئی ہزار فوجی مروا کر یوکرائن سے خالی ہاتھ واپس آنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ یوکرائنی صدر کے بقول وہ روزانہ بلند آواز سے چیخ کر امریکہ اور دوسرے23یوروپین یونین ممالک کو ان کے وعدے یاد دلا رہے ہیں۔لیکن کوئی بھی میدان جنگ میں آنے کو تیار نہیں۔امریکہ کا اصل مقصد روس کے پڑوس میں ایک ایسی آگ بھڑکانا ہے ۔جو سالہا سال تک روس کو محدود اور مصروف کرنے کے علاوہ امریکی اسلحہ ساز انڈسٹری کے مال کی کھپت کا بندوبست کیا جائے۔یہ محاذ اس لئے بھی امریکہ کو عزیز ہے کہ یہ امریکی سرزمین سے ہزاروں میل دور ہے ۔جو امریکی مفادات کی خاطر لڑی جائیگی۔لیکن ان میں امریکہ کا ایک بھی فوجی نہیں مرے گا اور امریکی اسلحہ ساز انڈسٹری کے وارے نیارے ہوکر امریکہ کی دیوالیہ معیشت کو سنبھالا دے گی۔جبکہ خطے کے دیگر ممالک پر دبائو بڑھے گا کہ وہ نام نہاد جمہوریت نسانی حقوق اور قوموں کی سا لمیت اور بقا کے نام پر امریکہ اور مغرب کا ساتھ دیںتاکہ چین کے گھیرائو کے ساتھ ساتھ روس کا بھی گھیراو کیا جا سکے۔جو کہ عملی طور پر ناممکن اور دیوانے کا خواب ہے کیونکہ صرف روس اور چین بھی ہاتھ ملا لیں تو آدھی دنیا بنتے ہیں اور وہ بہت آسانی سے متبادل دفاعی اور مالیاتی نظام وضع کرکے نہ صرف مغربی مالیاتی اداروں سے دنیا کو بے نیاز کر سکتے ہیںبلکہ ان کی ساری ضروریات بھی پوری کر سکتے ہیں۔کیونکہ روس نہ صرف سلامتی کونسل میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں اور گولان کی پہاڑیوں کے مسئلے پر نیا سٹینڈ لے سکتا ہے بلکہ کچھ ایرانی حمایت یافتہ تنظیموں کو ہلاکت خیز اسلحہ مہیا کرکے اسرائیل کیلئے پریشانیاں پیدا کر سکتا ہے ۔ مغرب اور اشتراکیت کے موجودہ ٹکرائو کے نتیجے میں مسلمان دنیا خاص کر پاکستان کے ایک عالمی کھلاڑی بن کر ابھرنے کا امکان بالکل سامنے ہے۔ اس طرح پوری دنیا کے مظلوم انسانوں کیلئے بلا تفریق مذہب ‘نسل اور رنگ کے ایک منصفانہ ورلڈ آرڈر کا راستہ ہموار ہوگا۔کئی مہینے پہلے اپنے ایک مضمون ”اپنے پتے بچا کر رکھیں”شائع شدہ روزنامہ مشرق میں عرض کر چکا ہوںکہ مغربی اور اشتراکی قوتوں کی آپس کی لڑائی اور ہماری غیر جانبداری ہی میں ہماری اور پوری دنیا کے مظلوم انسانوں کی خیر ہے۔ہمیں مزارع بن کر پرانے یا کسی نئے چودھری کی پناہ میں رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ہم خود23کروڑ جری عوام پر مشتمل ایک نیو کلیئر طاقت ہیںاور اگر ہمارے ساتھ دو تین اسلامی ممالک مل کر ایک دفاعی اتحاد بنا لیں تو دنیا میں ایک نئی سپر طاقت ابھر سکتی ہے۔جو لا شرقیہ ولا غربیہ کا نعرہ لگا کر پوری دنیا کے انسانوں کی بھلائی کیلئے ایک متبادل اور قابل عمل نظام دے سکتی ہے۔ ہے کوئی جمال الدین افغانی یا علامہ اقبال جیسا کوئی دیدہ ور ؟ کوئی میر کاراں ؟ جو نگہ بلند”سخن دلنواز ” جان پر سوز جیسے رخت سفر سے مسلح ہو کر نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر اسلامی دنیا کو اکٹھا کر سکے۔تقریباً ایک صدی بعد یہ موقع ہاتھ آیا ہے۔جب دوسرے نظام آپس میں دست و گریباں ہیں اور ہمارے ہاتھ کھلے ہوے ہیں ۔ ابھی ورنہ کبھی نہیں۔

مزید پڑھیں:  آٹھ شعروں کی غزل پر ٹیکس کاٹا جائے گا