قومی اتفاق رائے نا گزیر

ملک کے معاشی اور سکیورٹی حالات کے پیش نظر قومی اتفاق رائے بے حد ضروری ہے، اتفاق رائے، اتحاد اور یکجہتی کے بغیر چیلنجز پر قابو پانا مشکل ہو گا، پاک افغان سرحد، ضم شدہ اضلاع اور بلوچستان میں مسلسل دہشتگردی کے ناخوشگوار واقعات پیش آ رہے ہیں، سکیورٹی ادارے شدت پسندوں کے نشانے پر ہیں، بلوچستان میں ایک بار پھر حالات خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، تاکہ سی پیک اور گوادر بندر گاہ پر ہونے والے ترقیاتی کاموں میں رخنہ ڈالا جا سکے۔ بلوچستان میں ریکوڈک سونے اور تانبے کے ذخائر1993ء کو دریافت ہوئے مگر ہم ان سے فائدہ حاصل نہیں کر سکے ہیں کیونکہ جب بھی کسی کمپنی کے ساتھ معاہدہ ہوتا ہے تو اسے سبوتاژ کرنے کی کوششیں شروع ہو جاتی ہیں، اب طویل عرصے کے بعد وفاقی حکومت نے ایک بار پھر ریکوڈک منصوبے کو بحال کیا ہے تو بلوچستان میں سکیورٹی مسائل پیدا ہونے لگے ہیں تاکہ اس عظیم منصوبے کو عملی شکل نہ دی جا سکے۔ قبائلی اضلاع کی صورتحال یہ ہے کہ سکیورٹی فورسز کی قربانیوں کی بدولت مذکورہ اضلاع میں امن قائم ہو گیا تھا، تاہم ابھی نظام زندگی مکمل بحال بھی نہ ہوا کہ ان علاقوں میں سکیورٹی خدشات بڑھنے لگے ہیں، پے در پے کے واقعات کے بعد قومی قیادت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ جس طرح ماضی میں آپریشن کر کے شرپسندی کا راستہ روکا گیا تھا اب بھی اس طرز کے آپریشن کی ضرورت ہے۔
سکیورٹی ادارے جب شدت پسندوں کے ساتھ لڑنے میں مصروف ہوں تو انہیں عوام اور قومی قیادت کی حمایت کی ضرورت ہوتی ہے، اس ضمن میں دیکھا جائے تو افواج پاکستان کیلئے سکیورٹی چیلنجز تو موجود ہیں مگر قومی قیادت متحد ہونے کی بجائے منتشر ہے، ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں باہم دست و گریبان ہیں جس سے معاشی بحران جنم لے چکا ہے، اب صورتحال یہ ہے کہ ہمیں بیک وقت دو محاذوں پر چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایک سکیورٹی اور دوسرا معاشی سطح پر۔ ملک کو معاشی طور پر مضبوط کئے بغیر سکیورٹی اداروں کو مضبوط نہیں کیا جا سکتا ہے، شاید اسی طرف آرمی چیف نے اشارہ کیا ہے کہ پاکستان اپنے انتہائی نازک موڑ سے گزر رہا ہے، معیشت اور دہشتگردی کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے تمام فریقوں کو قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے،آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے پاسنگ آئوٹ پریڈ اور افسران سے خطاب میں جن فریقوں کو مخاطب کیا ہے وہ سیاسی قیادت ہے، اس لئے کہ گزشتہ ایک برس کے دوران سیاسی بحران شدت اختیار کر چکا ہے، چیرمین تحریک انصاف عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے ہٹایا گیا تو تب سے لیکر وہ سراپا احتجاج ہیں، عمران خان فوری نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں، جبکہ اسمبلی کی آئینی مدت اگست2023ء تک ہے، یہی وجہ ہے کہ دیگر جماعتیں عمران خان کے اس مطالبے کو درخور اعتناء نہیں سمجھ رہیں، ان سیاسی اختلافات کا نتیجہ ہے کہ بے یقینی کی فضا پیدا ہو گئی ہے۔ یہ درست ہے کہ مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے مسائل میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ بے یقینی اور ریاستی رٹ کمزور ہونے کا فائدہ اٹھا کر پچھلے کچھ عرصہ سے مافیاز بھی سرگرم ہیں جنہوں نے مصنوعی بحران پیدا کر رکھا ہے جو عوام کی مشکلات میں اضافے کا باعث بن رہا ہے، صورتحال یہ ہے کہ ملک کے دیوالیہ ہونے کی باتیں زبان زد عام ہیں، کیونکہ ملکی ذخائر کم ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں، سٹیٹ بینک کے ذخائر محض5ارب ڈالر تک رہ گئے ہیں، اس کے مقابلے میں کمرشل بینکوں کے ذخائر سٹیٹ بینک سے کچھ زیادہ ہیں۔ ہمارے پاس جو ذخائر موجود ہیں یہ بھی دوست ممالک کے ہیں، یہ حالات تقاضا کرتے ہیں کہ قومی قیادت اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ کر ملک کی خاطر مل بیٹھیں، باہمی مشاورت سے ملک کو بحران سے نکالنے کی راہ تلاش کریں، مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ قومی اتفاق رائے ہو گا کیسے؟
یہ حقیقت ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے فائدے کے لئے جب چاہیں مخالف جماعت کے ساتھ اتحاد کرنے سے ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتی ہیں، اس وقت پی ڈی ایم میں13جماعتیں موجود ہیں جو ماضی میں ایک دوسرے کی سخت مخالف رہ چکی ہیں، اب بھی ہر جماعت اپنے نشان اور منشور پر الیکشن لڑنے کا برملا اظہار کرتی ہے، اس کے باوجود تحریک انصاف کے خلاف یہ جماعتیں اپنے اختلافات کو بھلا کر ایک ہو گئیں، اس وقت پی ڈی ایم جماعتوں کے اتحاد کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ماضی میں ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں تھا، یہی صورتحال تحریک انصاف کی طرف بھی دیکھی جا سکتی ہے کہ اس نے پنجاب میں ق لیگ کو اپنے مفاد کی خاطر ساتھ ملا کر رکھا ہے، یوں سیاسی جماعتیں باہمی اتفاق سے اپنے مفادات کو پروان چڑھا رہی ہیں، کیا ملک اور قوم کو بحران سے نکالنے کیلئے ایسا اتحاد نہیں ہو سکتا؟ ہو سکتا ہے مگر سیاسی جماعتیں اس مقصد کیلئے لچک کا مظاہرہ کرنے کیلئے آمادہ نہیں ہیں کیونکہ انہیں ملک و قوم کے مفاد سے زیادہ اپنے مفادات عزیز ہیں، سیاسی جماعتوں کی ترجیحات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں معاشی و سکیورٹی مسائل بڑھنے والے ہیں، اس کا واحد حل قومی اتفاق رائے ہے جس جانب آرمی چیف نے اشارہ کیا ہے۔

مزید پڑھیں:  جو اپنے آپ سے شرمندہ ہو خطا کر کے