پانی کی قلت اور موسمیاتی تبدیلی سے بچاو، مصنوعی گلیشیئر کا کامیاب تجربہ

ویب ڈیسک: ملک بھر میں پانی کی قلت اور موسمیاتی تبدیلی سے تحفظ کیلئے ماہرین کوشاں رہے ہیں۔ اب کی بار ماہرین کو ایسے بڑے چیلنجز سے نمٹنے میں کامیابی کے آثار دکھائی دینے لگے ہیں۔
کلائمیٹ چینج کے اثرات کو کم کرنے اور پانی کی قلت کو ختم کرنے کیلئے مصنوعی گلیشئیر بنانے کا کامیاب تجربہ کیا گیا ہے جس میں 2 لاکھ گیلن پانی سٹور کیا گیا ہے جو کہ خشک سالی کے دوران مویشیوں اور زمیندار زراعت کیلئے استعمال کرسکیں گے۔
ادارہ تحفظ ماحولیات خیبر پختونخوا کے ڈپٹی ڈائریکٹر افسر خان کے مطابق ای پی اے نے شمالی علاقہ جات میں پانی کی قلت کو کم کرنے کیلئے چترال میں کامیاب تجربہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مارچ 2023ء میں فیزیبلٹی سروے کیا گیا جہاں سورج کی روشنی کم پڑنے کے پانی کا چشمہ بھی دستیاب ہو جہاں دسمبر یا جنوری میں درجہ حرارت 5 سے کم ہو۔
انہوں نے مزید بتایا کہ یہ تجربے پہلے بھی لداخ اور چترال کے مقامی لوگ کیا کرتے تھے تاہم اس مرتبہ اس عمل میں سائنس کی بنیاد پر تجربہ کیا گیا اور عملی کام قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت سے ٹرانسفر کیا گیا جس میں وہاں کے دو پروفیسرز سے رہنمائی لی گئی۔
ذرائع کے مطابق سب سے پہلے 2700 میٹر کی بلندی پر پہاڑی میں پانی کا چشمہ ڈھونڈا گیا اور پھر پی پی وی سی پائپ کے ذریعے تقریبا ایک ہزار فٹ کے فاصلے پر ندی کے کنارے پائپ کو سطح زمین سے 18 فٹ اونچائی اٹھا کر کشش ثقل کی مدد سے پانی کو اچھالا گیا جب ارد گرد درجہ حرارت منفی پانچ سے کم ہوگیا تو اس پانی سے برف بننا شروع ہوگئی۔
ذرائع کے مطابق یکم دسمبر تا31 دسمبر 18 فٹ لمبا اور 25 فٹ چوڑا کون کی شکل میں اسٹوپا بنایا گیا جس میں 2 لاکھ گیلن پانی سٹور کیا گیا۔ چترال میں پانی کی قلت دور کرنے کے لیے یہ ایک کامیاب تجربہ ہے۔ اس سے موسمیاتی تبدیلی کی تناظر میں زمینداروں کو بھی بہت فائدہ پہنچے گا اور خشک سالی کی صورت میں اسٹوپا سے پانی زراعت کے لیے استعمال ہوگا۔

مزید پڑھیں:  پشاور، میئر پشاور کے حکم پر کیپٹل میٹروپولیٹن گورنمنٹ کے دفاتر بند
مزید پڑھیں:  آزاد کشمیر میں ہڑتال جاری، اشیائے خورد و نوش کی قلت

ذرائع کے مطابق پی وی سی پائپ اور سول ورک پر2 لاکھ روپے کا خرچہ آیا ہےیہ پائپ آئندہ بھی قابل استعمال ہے اگر اس عمل کو بڑے پیمانے پر دہرایا جائے تو ممکن ہے کہ مستقبل میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے جو چیلنجز درپیش ہیں ان پر قابو پایا جا سکے۔ اس سے مقامی آبادی کے روزگار کو دوام بخشا جا سکتا ہے جس سے انہیں نقل مکانی نہ کرنے میں مدد ملے گی۔