اسلام آبادہائکورٹ

گمشدگیوں میں ملوث افراد کیلئے پھانسی کی سزا ہونی چاہئے،اسلام آبادہائکورٹ

ویب ڈیسک: اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے شاعر احمد فرہاد کی بازیابی کی درخواست پر سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ میری رائے ہے کہ قانون سازی ہو اور گمشدگیوں میں ملوث افراد کو پھانسی دی جائے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے مقدمے کی سماعت کی، سینئر سپرٹینڈنٹ پولیس آپریشنز جمیل ظفر عدالت کے سامنے پیش ہوئے، اس کے علاوہ احمد فرہاد کی اہلیہ کے وکیل ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھہ بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
دوران سماعت عدالت نے استفسار کہ کیا پیش رفت ہے؟ سرکاری وکیل نے بتایا کہ اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم بنائی ہے، کوشش جاری ہے،ایس ایس پی آپریشنز نے کہا کہ میں لاپتا فرد کی اہلیہ سے ملا ہوا ہوں، جہاں تک مجھے پتا چلا ہے گھر کے باہر سے ان کو اٹھایا گیا، ہم نے 15 گاڑیوں کی فوٹیجز لیں ہیں، گاڑیوں کے نمبر رات ہونے کی وجہ سے نہیں پڑھے جا رہے، گاڑیوں کے نمبر ٹریس کرنے کے لیے ابھی بھی ایف آئی اے میں کام جاری ہے، ملک بھر کے تمام آئی جیز کو ہم نے خط لکھا ہے، تمام خفیہ اداروں کو بھی خطوط لکھے ہیں، جیوفینسنگ ہم نے کر لی ہے کچھ وقت اس میں لگے گا، سی ڈی آر اور جیو فینسنگ پر کام ابھی ہونا ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ کو مثبت رسپانس ملا ہو؟ کل کہا تھا کہ پولیس انوسٹی گیشن جب ختم ہو جائے تو سیکریٹری دفاع کو بلاں گا، اسسٹنٹ اٹارنی جنرل صاحب! سیکریٹری دفاع کو بلانے کا یہی وقت ہے، یا تو آپ کہیں کہ را کے ایجنٹس آئے اور بندے کو اٹھایا، تو میں مان لوں، اس سال میں جتنے بھی پرچے ہوئے ہیں کسی میں بھی ابھی تک تفتیش مکمل نہیں ہوئی، میں ابھی بتا رہا ہوں، یہ فنگر پرنٹس ہی میچ نہیں کریں گے، باعث شرم بات ہے، پوری قوم کو پتا ہے کہ کون کیا کررہا ہے۔
عدالت نے مزید ریمارکس دیے کہ پورے پاکستان کو مجھ سمیت پتا ہے مگر آنکھیں بند کی کی ہوئی ہیں ہم نے، کیا زبردست سسٹم ہے، لاپتا شخص بیچارہ واپس آکر کچھ کہہ بھی نہیں سکتا، لاپتا شخص جب آ جاتا ہے تو ان کو اور ان کی فیملی کو بتایا جاتا ہے خاموش رہنا ہے، میری رائے ہے کہ قانون سازی ہو اور گمشدگیوں میں ملوث افراد کو پھانسی دی جائے، اصل بات وہی ہے، وہ لوگ لاپتا ہیں جو بات کررہے ہیں، لاپتا افراد میں اکثریت صحافیوں، سوشل کارکنان کی ہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار سے کوئی لاپتا ہوگا تو سزا آئی جی کو بھگتنا ہوگی، سیکریٹری دفاع سے نہیں ہوا تو وزرا اور پھر وزیر اعظم کو بلاں گا، سیکیورٹی اداروں کو خط لکھنے سے مسئلہ حل ہوگا؟
ایس ایس پی آپریشنز نے بتایا جب ان اداروں کو لکھتے ہیں تو کبھی مثبت جواب نہیں آیا۔
اس پر عدالت نے کہا کہ ایک عام آدمی کی چار باتیں آپ کو بری لگتی ہیں، بندے کو ہی اٹھا لیا، سارا دن سوشل میڈیا پر لوگوں کی عزتیں اچھالی جارہی ہیں، کیا کریں، سب کو اٹھائیں گے؟ اگر آپ سے کام نہیں ہورہا تو کوئی متبادل آپشن دیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اپنا کام کریں تو آپ کو پریس کانفرنسز کی ضرورت نہیں پڑے گی، بندے کے بازیابی میں اگر یہ سارے ناکام ہوئے تو ان کے خلاف توہین عدالت کا شوکاز کروں گا، مجھے پولیس پر پورا یقین ہے، ریاست کا چہرہ پولیس ہے کوئی اور نہیں۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔

مزید پڑھیں:  سٹاک مارکیٹ میں نئِی تاریخ رقم، 80 ہزار پوائنٹس کی حد عبور