مخصوص نشستیں پاکستان تحریک انصاف

مخصوص نشستیں پاکستان تحریک انصاف کو دینے کا حکم

پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم، سپریم کورٹ کی جانب سے مخصوص نشستیں پاکستان تحریک انصاف کو دینے کا حکم جاری، 13 رکنی فل کورٹ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دے دیا۔
ویب ڈیسک: پشاور ہائیکورٹ سمیت الیکشن کمیشن کا حکم کالعدم قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے مخصوص نشستیں پاکستان تحریک انصاف کو دینے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ نے اس حوالے سے کیس کی سماعت کی ، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اختر افغان فل کورٹ کا حصہ ہیں۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے 13 رکنی فل کورٹ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دے دیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بتایا کہ سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر فیصلہ 8 کی اکثریت کا فیصلہ ہے جسے جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے بتایا کہ فیصلہ 5-8 کے تناسب سے ہوا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس عرفان سعادت، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس محمد علی مظہر نے اکثریت میں فیصلہ دیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فاٸز عیسیٰ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس نعیم افغان، جسٹس امین الدین خان نے درخواستوں کی مخالفت کی جبکہ جسٹس یحیٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ تحریر کیا۔
سماعت کے دوران سپریم کورٹ کی جانب سے ریمارکس دیئے گئے کہ انتخابی نشان واپس لینا سیاسی جماعت کو انتخابات سے باہر نہیں کر سکتا، پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کے حصول کی حقدار ہے، پی ٹی آئی سیاسی جماعت تھی اور ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلہ سناتے ہوئے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلوں کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ آئین کے خلاف ہے۔
سپریم کورٹ نے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب، خیبرپختونخوا اور سندھ میں مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دے دی جائیں۔
سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں بطور سیاسی جماعت قرار دے دیا اور سنی اتحاد کونسل کی اپیلیں مسترد کر دیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی اس فیصلے کے 15روز میں اپنے مخصوص افراد کی نشستوں کے نام کی فہرست دے سکتی ہے، باقی 41 امیدوار بھی 15 دن میں سرٹیفکیٹ دے سکتے ہیں کہ وہ اسی جماعت کے امیدوار تھے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق الیکشن کمیشن نے 80 امیدواروں کا ڈیٹا جمع کروایا، انتخابی نشان ختم ہونے سے کسی جماعت کا الیکشن میں حصہ لینے کاحق ختم نہیں ہوتا، انتخابی نشان کا نہ ملنا کسی سیاسی جماعت کو انتخابات سے نہیں روکتا۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سنی اتحاد کونسل آئین کے مطابق مخصوص نشستیں نہیں لے سکتی، پی ٹی آئی بطور سیاسی جماعت قانون اور آئین پر پورا اترتی ہے۔
عدالت کی جانب سے مزید کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی بحیثیت جماعت مخصوص نشستیں حاصل کرنے کی قانونی و آئینی حقدار ہے، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے منتخب ارکان پی ٹی آئی کا حلف نامہ دیں، جن امیدواروں نے سرٹیفکیٹ دیا کہ وہ پی ٹی آئی سے ہیں وہ ایسا ہی رہے گا، پی ٹی آئی کے منتخب امیدواروں کو کسی اور جماعت کا یا آزاد امیدوار قرار نہیں دیا جا سکتا۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے ارکان کو نکال کر فیصلہ دیا، اس بنیاد پر پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے، الیکشن کمیشن نے غلط طور پر پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد ڈکلیئر کیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی، الیکشن کمیشن دوبارہ مخصوص نشستوں کی تقسیم کرے، اب پی ٹی آئی کے منتخب ارکان یا خود کو آزاد یا پی ٹی آئی ڈکلیئر کریں، پی ٹی آئی ارکان پر کسی قسم کا دباو نہیں ہونا چاہیے۔
یاد رہے کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی لارجز بنچ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلہ سنانے سے قبل فل کورٹ کے دو اجلاس بھی منعقد ہوئے۔

مزید پڑھیں:  خیبر پختونخوا کے وسائل کو عوام پر خرچ کرنا چاہیے، مریم نواز