آئینی ترامیم لے کر آئیں گے

آئینی ترامیم لے کر آئیں گے،اپوزیشن نے گھبرانا نہیں : وزیر قانون

ویب ڈیسک: وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ آئینی ترامیم دلیری کے ساتھ لے کر آئیں گے ،اپوزیشن نے گھبرانا نہیں ہے۔
قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی اسد قیصر کی تقریر کا جواب دیتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا پارلیمنٹ کا اختیار ہے کہ آئینی ڈھانچے میں رہتے ہوئے قانون سازی کرے۔
انہوں نے کہا کہ قانون سازی حکومت کا اختیار ہے اور ہم ایک قانون لا رہے ہیں جس کے مطابق سال میں مقدمے کا فیصلہ نہ کرنے والے ججز کے خلاف تادیبی کارروائی ہوگی۔
وفاقی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ ڈرافٹ پر پہلے حکومتی حلقوں میں مشاورت ہوتی ہے، یہ بل مسودہ بن کر کابینہ میں نہیں گیا اور نہ سی سی ایل سی میں گیا جبکہ مسودے کی تیاری کے لیے ہماری مشاورت تمام اتحادی جماعتوں سے ہوئی۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آرٹیکل 8 اور 199 سے متعلق تجاویز تھیں جبکہ نیشنل سیکیورٹی سے متعلق کچھ مخصوص علاقوں سے متعلق ایک تجویز تھی، مسودہ لانا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن مسودہ فائنل ہوتا تو سامنے لایا جاتا، پارلیمان کو آئینی ترامیم کا اختیار ہے۔
ان کا کہنا تھا آئینی ترمیم کوئی نئی بات نہیں یہ چارٹر آف ڈیموکریسی کا حصہ ہے، ہم اپنی مخالفتوں اور ٹائمنگ کی وجہ سے اپنی داڑھیاں کھینچتے رہتے ہیں اور اپنی ساری طاقت جا کر جھولی میں ڈال کر آجاتے ہیں، خدارا مضبوط ہو کر کھڑے ہوں کہ 25 کروڑ عوام نے آپ کو اختیار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آپ نے ملک کی ڈائریکشن طے کرنی ہے اور بتانا ہے کہ ملک کیسے چلنا ہے، چیف جسٹس نے چینی کا ریٹ طے نہیں کرنا ہے، چیف جسٹس نے بجلی کے کھمبے لگانے کا حکم نہیں دینا، چیف جسٹس نے نہیں بتانا کہ کون سی سیاسی جماعت نے کیسے چلنا ہے، منشور اس ایوان میں بیٹھے لگوں نے دینا ہے۔
اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا جب آئینی ترامیم کا معاملہ کمیٹی میں آیا تو میں نے وہاں آئینی عدالت کی تجویز پیش کی جسے فوری طور پر چیف جسٹس پاکستان کی مدت ملازمت سے جوڑ دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ آئینی عدالت میں ایک چیف جسٹس اور 7 سے 8 ججز کی تعیناتی کی بات سامنے آئی ہے، اس آئینی عدالت میں تمام اکائیوں کی نمائندگی ہو گی، اپنی کمزوریوں کی وجہ سے ہماری خواہش ہوتی ہے کہ ہمارے معاملات سپریم کورٹ جائیں اور وہیں پر حل ہوں کیونکہ ہم یہ معاملات اکٹھے بیٹھ کر حل نہیں کر سکتے۔
وزیر قانون نے کہا کہ ہم نے اتنی نادانیاں کی ہیں کہ سارا اختیار دیوار کے اس پار دے دیا ہے، کچھ اس پار ہے اور کچھ اس سے آگے ہوگا، یہ کب واپس آئے گا جب آپ نے اپنا اختیار استعمال کرنا شروع کرنا ہے اور وہ اختیار قانون سازی کا اختیار ہے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آئینی عدالت کی شکل کیا ہوگی، آئینی عدالت میں 7 سے 8 ججز ہوں جس میں وفاق کی تمام اکائیوں کی نمائندگی ہو جبکہ آرٹیکل 184 کو ریگولیٹ کریں گے۔ ججز تقرری سے متعلق جوڈیشل کمیشن کو 12 رکنی کرنے کی تجویز دی گئی جبکہ کمیشن میں 6 ججز، چار اراکین پارلیمنٹ، وزیر قانون اور اٹارنی جنرل کو شامل کرنے کی تجویز تھی۔
انکا کہنا تھا کہ فوجداری مقدمات، دیوانی مقدمات، بینکنگ اور سروس ٹربیونل کے مقدمات سپریم کورٹ آتے ہیں جبکہ اپنی کمزوری کی وجہ سے اپنے مسائل بھی سپریم کورٹ جاتے ہیں اس لیے اپنی کمزوری کی وجہ سے اپنا اختیار دیوار کے اس پار دے دیا ہے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اس آئینی پیکج میں بار کونسل ایسوسی ایشنز کا ذکر ہوا، جس بار کونسل نے اس کی مخالفت کی میں ذمہ دار ہوں گا۔ آئینی عدالتوں پر جوڈیشل کمیشن پر پاکستان کے رول پر وکلا برادری کب سے مطالبے کر رہی ہے۔
وفاقی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ قاضی فائز آپ کے خوابوں میں زیا دہ آتے ہیں، ہم نے بھی دیکھا جو ڈیم بنانے کے نام پر ہمیں ہانکتے تھے۔

مزید پڑھیں:  انٹرا پارٹی انتخابات: پی ٹی آئی کو دستاویزات جمع کرانے کیلئے مہلت