تاریخ خود کو دہراتی رہتی ہے

جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی آئینی ترمیم پر سخت اور ڈرامائی موقف میں حسب دستور لچک کا تاثر دکھائی دینے لگا ہے جبکہ تحریک انصاف کے اسیر قائد کے مقتدرہ سے بات چیت کے دروازے بند کرنے کے حتمی اعلان کے باوجود ایک مرتبہ پھر اسٹیبلشمنٹ کا در کھٹکھٹانے کی باز گشت ہے ۔جے یو آئی کے سربراہ کا تازہ فرمان ہے کہ آئینی ترامیم اتفاق رائے سے منظور ہونی چاہئے دوسری جانب اخباری اطلاعات کے مطابق جے یو آئی کے سربراہ مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات پر آمادہ ہیں ہر دو سیاسی ہوائوں کا رخ خواہ وہ حکومت ہو یا حزب اختلاف کی قابل ذکر سیاسی جماعتیںیا پھر مقتدرہ سے پنجہ آزمائی کی دعویدار اور عوام کو ان کے مقابلے میں لاکھڑا کرنے والی جماعت ایک گروہ ان کی سہولت کاری اور دوسری ان سے معاملت کی متمنی ہے ان حالات میں ملک میں سیاست حکومت اور جمہوری نظام سبھی بے معنی سے ہو جاتی ہیںایک جانب یہ صورتحال ہے تو دوسری جانب عدالت عظمیٰ میں تقسیم اور الیکشن کمیشن و پارلیمان کے دائرہ اختیار جیسے معاملات ملکی افق پر ہیں لیکن بہرحال حسب سابق جن کا پلہ بھاری رہتا آیا ہے انہی کا پلہ پھر سے بھاری ہی نکلنے کا قرعہ آنے کا امکان زیادہ ہے ہماری ملکی سیاست کا المیہ ہی یہ ہے کہ عطار کے لڑکے سے دوا لیئے بغیر کا م نہیں چلتا اور ہمارے بڑے بڑے انقلاب اور للکار کی شہرت رکھنے والے بالاخر اسی در کی چوکھٹ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں بلاوجہ مقتدرہ کوللکارنے کا عمل بھی مناسب نہیں اور جہاں تنقید کی ضرورت ہو وہاں صحت مندانہ اختلاف اور تنقید کا بھی مظاہرہ کیا جائے مگر ہر معاملے میں ان کی چوکھٹ پرباری باری سر رگڑنے کا یہ سلسلہ اب بند ہونا چاہئے اس ضمن میں فریقین معاملہ اعتدال سے کام لینے کی روایت ڈالیں مگر ہمارے ہاں کبھی اس انتہا پر اور کبھی اس انتہا پر ہونے سے معاملات کبھی نہیں سلجھتے اس مرتبہ بھی پرانا منظر نامہ دہرانے کی تیاری نظر آتی ہے اور تاریخ خود کو دہرانی ہے کا مقولہ ایک مرتبہ پھر درست ثابت ہونے کو ہو۔

مزید پڑھیں:  ووٹ کو عزت دو؟؟