آئینی ترمیم کی کھچڑی

مجوزہ 26ویں آئینی ترمیم پر ان دنوں ملکی سیاسی اور قانونی حلقوں میں جو بحث چل رہی ہے اسے اگر ایک ایسی کھچڑی سے تعبیر کیا جائے جس کی ہانڈی بیچ چوراہے کے منظوری سے پہلے ہی پھوٹ چکی ہو تو شاید غلط نہیں ہوگا ،بھانت بھانت کی بولیوں پر جتنے منہ اتنی باتیں کا اطلاق بھی آسانی سے کیا جا سکتا ہے، ایک جانب مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس مجوزہ آئینی ترمیم پر اتفاق رائے کی کوششیں( تادم تحریر) ناکام نظر آتی ہیں، تودوسری جانب قانونی حلقوں کی جانب سے بھی اس پر اعتراضات اور اتفاقات کے درمیان کسی متفقہ نکتے پر سوال اٹھ رہے ہیں، جبکہ بینچ کے اندر بھی تشویش ناک مسائل سامنے آرہے ہیں ،گزشتہ روز تک ان معاملات پر یہ اعتراضات اٹھائے جا رہے تھے کہ ابھی تک مجوزہ ترامیم کا مسودہ ہی سامنے نہیں ا سکا جبکہ حیرت زا امر یہ ہے کہ جس آئینی ترمیم کو ابھی تک پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں ٹیبل ہی نہیں کیا گیا، اس کو روکنے کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست بھی سماعت کیلئے مقرر کر دی گئی ہے، ادھر اب تک ایک نہیں تین تین مجوزہ مسودے سامنے آگئے ہیں، ایک حکومت کی جانب سے ،دوسرا پاکستان پیپلز پارٹی اور تیسرا جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے جبکہ بعض حکومتی رہنماؤں نے تحریک انصاف کو بھی دعوت دی ہے کہ وہ سامنے آنیوالے مسودے میں اپنی ترامیم جلد از جلد بھیج دے تاکہ ایک متفقہ ترمیم کی را ہموار کی جا سکے، دوسری جانب اے این پی کے مرکزی رہنماء سینیٹر ایمل ولی خان نے مطالبہ کیا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم میں صوبہ خیبر پختونخوا کا نام صرف پختونخوا کر دیا جائے، اس کی دو وجوہات سمجھ میں آئی ہیں کہ ایک تو ملک بھر میں سیاسی اور صحافتی حلقوں میں بہت کم صوبے کا پورا نام خیبر پختونخوا لیا جاتا ہے اور لوگ اپنی مرضی سے کے پی کے یا صرف کے پی لیکر ہی کام چلا چلاتے ہیں جو اصولی ،قانونی اور اخلاقی طور پر غلط ہے ،دوسرا یہ کہ جب سارے ( سابق قبائلی علاقے )اب صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم ہو چکے ہیں تو بھی یہ نام درست نہیں لگتا اور تیسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ لفظ پختونخوا کے انگریزی تلفظ میں پختونخوا کے حرف(پ)پر پیش کی جگہ زبر لگا دیا گیا ہے اور اسےPakhtunkhuwa لکھا جاتا ہے حالانکہ انگریزی حرف) P)کے بعد حرف(U) لکھنا چاہیے،یوں تکنیکی طور پر بھی یہ نظر ثانی کا طالب ہے اور یہ غلطی آئینی ترمیم کے ذریعے ہی درست کی جا سکتی ہے، اس لئے ایمل ولی خان کا یہ مطالبہ بھی اپنی جگہ درست اور قابل توجہ ہے، جبکہ مجوزہ آئینی ترمیم پر ایک جانب تحریک انصاف راضی نہیں، تو جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے جو مسودہ پیش کیا ہے اس پر تحریک انصاف کے ایک سینئر رہنماء اور سابق وفاقی وزیر نے دور کی کوڑی لاتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ جے یو آئی کا مسودہ تباہ کن ہے، پارلیمنٹ ختم کر کے سارا ملک مولویوں کو دے دیں اور طالبان کا نظام بنا دیں، موصوف نے اور بھی بہت کچھ کہا ہے تاہم ان سے ایک سادہ اور معصوم سا سوال بھی بنتا ہے کہ انہوں نے جمعیت علماء اسلام پر طالبان نظام کا جو الزام لگایا ہے تو خود ان کے دور حکومت میں یہ جو لا تعداد طالبان کو نہ صرف مبینہ طور پر جیل خانوں سے رہا کر کے اور افغانستان سے بھی طالبان لا کر خیبر پختونخوا میں بسانے کے الزامات کھلے بندوں لگائے جاتے ہیں اور جنہوں نے بعض حلقوں کی جانب سے گزشتہ انتخابات میں تحریک انصاف کی خیبر پختونخوا میں مبینہ جیت کو یقینی بنانے اور اس کے مخالفین جمعیت، جماعت ،اے این پی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کو ہرانے میں اہم کردار ادا کیا، تو یہ سب کیا تھا؟، دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین سابق وزیر خارجہ اور رکن پارلیمنٹ بلاول بھٹو زرداری نے وفاقی آئینی عدالت کے قیام کو قائد اعظم کا خواب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پہلی بار آئینی عدالت کی تفصیل 27 اکتوبر 1931ء کو بابائے قوم نے لندن میں منعقدہ گول میز کانفرنس میں پیش کی تھی، جس پر بعض حلقے یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ قائد اعظم کی مجوزہ آئینی عدالت کو ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے کیوں پایا تکمیل تک نہیں پہنچایا،جبکہ یہاں ایک اور اہم سوال بھی اٹھتا ہے کہ بابائے قوم کی 11 اکتوبر 1947ء کی جس تقریر کو بعض مخصوص حلقوں نے پورا پورا نشر کیوں نہیں ہونے دیا جس میں پاکستان کے مستقبل کا خاکہ پیش کیا گیا تھا اور اسے کانٹ چھانٹ کر ہی ریڈیو پر نشر ہونے دیا گیا ،جس پر قائد اعظم کی جانب سے کسی رد عمل کے حوالے سے تاریخ خاموش ہے، ادھر دیگر کئی سیاسی رہنماؤں نے بھی مجوزہ آئینی ترمیم پر اپنے اپنے انداز میں تبصرے کئے ہیں اور سوال اٹھائے ہیں جس کے بعد یہ آئینی ترمیم ایک کھچڑی میں تبدیل ہوتی نظر آتی ہے، جبکہ اس موقع پر ایک سوال یہ بھی سامنے آیا ہے کہ کیا عوام نے اس آئینی ترمیم کا مطالبہ کیا ہے جو یہ لوگ کرنے جا رہے ہیں ،تاہم اس سارے معاملے میں ایک اہم سوال اور بھی تو بنتا ہے کہ جس ملک میں سیاسی جماعتوں کے اندر بھی جمہوریت موجود نہ ہو اور شخصی آمریت کا راج ہو، وہ پارلیمنٹ کو اپنی من مرضی سے چلانے پر کیوں تلے بیٹھے ہیں، بہرحال بہتر ہوگا کہ آئینی ترمیم اتفاق رائے سے کی جائے تاکہ آنیوالے دور میں اس پر سوال نہ اٹھ سکیں۔

مزید پڑھیں:  جرگہ مطالبات اور وزیراعلیٰ کی یقین دہانی