تائیوان اور ہنگری آمنے سامنے

لبنان میں پیجر دھماکوں کے بعد تائیوان اور ہنگری آمنے سامنے

ویب ڈیسک: لبنان میں پیجر دھماکوں کے بعد تائیوان اور ہنگری آمنے سامنے آ گئے، دونوں ممالک کی جانب سے ایک دوسرے پر الزامات اور تردیدی بیانات کا سلسلہ چل نکلا ہے۔
لبنان واقعہ کے بعد پیجرز بنانے والی تائیوان کی کمپنی کی جانب سے پیجرز ہنگری کی کمپنی میں بننے کا دعویٰ کیا جانے لگا ہے جبکہ ہنگری نے تائیوان کے دعوے کی تردید کر دی۔
تائیوان کی جانب سے دعویٰ مسترد کرتے ہوئے ہنگرین کمپنی کا کہنا تھا کہ لبنان میں جن ڈیوائسز میں دھماکے ہوئے وہ ہنگری میں نہیں تھے، پیجرڈ یوائسز بنانے کیلئے جس کمپنی کا ذکر کیا گیا وہ ٹریڈنگ کمپنی ہے اس کا پیجر بنانے سے کوئی تعلق نہیں۔
برطانوی تحقیقات کے مطابق پیجر دھماکوں کے بعد سوشل میڈیا پر گردش کرتی تصویروں میں نظر آنے والے ایک تباہ شدہ پیجر پر ’گولڈ‘ اور ’اے پی‘ یا ’اے آر‘ کے الفاظ نمایاں نظر آتے ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ پیجر تائیوانی کمپنی ’گولڈ اپولو‘ نے تیار کیے۔
اس سلسلے میں جب مزید معلومات کیلئے گولڈ اپولو سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے لبنان دھماکوں میں استعمال ہونے والے پیجرز بنانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ماڈل بنانے کے بعد اس کے حقوق ہنگری کی ’بے اے سی‘ نامی کمپنی کو فروخت کردیے گئے تھے۔
گولڈ اپولو کے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہنگرین کمپنی کو لائسنسنگ ایگریمنٹ کے تحت پیجرز کا یہ ماڈل بنانے اور اس کی برانڈنگ کی اجازت حاصل تھی۔
رپورٹ کے مطابق لنکڈ ان پر کمپنی کے ایک بروشر میں یورپی کمیشن اور برطانیہ کے محکمہ انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ سمیت 8 آرگنائزیشنوں کے نام شامل تھے جن سے متعلق دعویٰ کیا گیا تھا کہ کمپنی نے ان اداروں کے ساتھ کام کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق بے اے سی کمپنی کی سی ای او کرسٹیانا بارسونی نے تصدیق کی کہ ان کی کمپنی گولڈ اپولو کے ساتھ کام کرتی رہی ہے تاہم پیجرز بنانے کے معاملے سے انہوں نے انکار کر دیا۔
ہنگرین وزیراعظم کے ترجمان نے معاملے سے اپنا پاتھ صاف کھینچتے ہوئے کہا کہ لبنان میں دھماکوں میں استعمال ہونے والے پیجرز کبھی ہنگری میں نہیں تھے۔
یاد رہے کہ لبنان میں پیجر دھماکوں کے بعد تائیوان اور ہنگری آمنے سامنے آ گئے، دونوں ممالک کی جانب سے ایک دوسرے پر الزامات اور تردیدی بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔

مزید پڑھیں:  آئینی ترامیم کیخلاف وکلاء تحریک کے آغاز کا اعلان کردیاگیا