پشاور گمشدگی

پشاور، مختلف علاقوں سے کم عمر بچے غائب ہونے لگے

پشاور(داود خان )صوبائی دارلحکومت پشاور کے مختلف علاقوں سے نوعمر لڑکے غائب یا پھر اغوا ہونے لگے ہیں جن کے بارے میں تا حال کچھ معلوم نہ ہو سکا۔جبکہ ایسے واقعات میں روز بروز اضافہ بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔زرائع کے مطابق ہر روز کسی نہ کسی تھانے کے حدود سے نوجوان اور کم عمر لڑکوں کے غائب ہونے کی اطلاعات موصول ہونے لگی ہے۔مصدقہ معلومات کے مطابق پچھلے ایک ماہ کے دوران 20 سے زائد کم عمر بچے اور نوجوان جن میں مدرسہ اور سکولز پڑھنے والے بھی شامل ہیں منظر عام سے مکمل غائب ہو چکے ہیں اور جن کے لاپتہ ہونے کی رپورٹس بھی مختلف تھانہ جات میں لکھوائی جا چکی ہے۔
ان نو عمر کمسن اور نوجوانوں کے غائب ہونے کے پیچھے مختلف قسم کے بھیانک خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے جس میں ایک خطرہ یہ بھی شدت کیساتھ لاحق ہے کہ یہ لاپتہ ہونے یا کیے جانے والے دہشت گردانہ کاروائیوں جیسے خودکش حملوں کیلئے تیار کرکے استعمال ہو سکتے ہیں کیونکہ پورے ملک جبکہ خصوصی طور پر خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی نئی لہر دوڑ رہی ہے جبکہ دوسری جانب انسانی اعضا کے سمگلروں کی چنگل میں پھنسنے کا بھی احتمال موجود ہے۔زرائع کے مطابق ان میں سے بیشتر لڑکوں کی عمریں 18 سال سے کم ہیں جن کے بارے میں تا حال نہ تو کسی سمگلر گروہ نہ کسی اغوا کار اور نہ کسی بیرون ملک لے جانے والے ایجنٹوں نے رابطے کئے ہیں۔غائب ہونے والے بچوں کا تعلق یکہ توت،حیات آباد،بڈھنی،پشتخرہ،باڑہ گیٹ،کوہاٹ اڈا،کوہاٹ روڈ،رینگ روڈ، نوا کلے،ہریانہ،تاج آباد،تہکال،سواتی گیٹ،ناگمان،داودزئی،چارسدہ روڈ،متھرا،ارمڑ اور دیکر علاقوں سے بتایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے پولیس کو رپورٹس کی جا چکی ہے مگر پولیس اور دیگر زمہ دار ادارے خواب غفلت کا شکار ہے معاملے کی نزاکت کو سمجھنے سے قاصر ہے اور ان واقعات کا تدارک کرنے میں مکمل ناکام نظر اتے ہیں۔
زرائع نے یہ بھی بتایا کہ ایسے ہی کم عمر نوجوانوں کے غائب ہونے کے واقعات حالیہ طور پر گلگت بلتستان میں بھی رونما ہونے لگے ہیں جو کسی اچھے مقصد کی جانب اشارہ نہیں ہے۔زرائع نے بتایا کہ ایک جانب غائب ہونے والے بچوں کے والدین شدید پریشانی کا شکار ہے جبکہ دوسری جانب ایسی وارداتیں کسی بڑے خطرے کی جانب دستک دے رہی ہے۔بچوں کے والدین کی جانب سے اپیل کی جا رہی ہے کہ ان واقعات کو پوری طرح سے سنجیدہ لیا جائے ان بچوں کو ڈھونڈنے کیلئے خصوصی ٹیمیں تشکیل دی جائے۔ان واقعات کو غیر معمولی سمجھ کر پولیس و دیگر ادارے اس پر پوری جانفشانی کیساتھ کام کریں تاکہ مستقبل میں ایسے مزید واقعات نہ ہو سکے اور ان بچوں کی دہشتگردانہ کاروائیوں میں استعمال ہونے سے روکا جا سکے۔

مزید پڑھیں:  فاٹا قومی جرگے کا آئینی ترامیم میں قبائیلی تشخص وروایت شامل کرنے کا مطالبہ