حسن نصراللہ کی مثالی کامیابی کاسفر

امل ملیشیا سے حزب اللہ، حسن نصراللہ کی مثالی کامیابی کاسفر

ویب ڈیسک: امل ملیشیا سے حزب اللہ تک کی حسن نصراللہ کی مثالی کامیابی کاسفر ایسا ہے کہ اس پر تاریخ کے اوراق بھی شاہد ہیں، یہ ان کی شخصیت ہی تھی کہ حماس، جہادِ اسلامی، حوثی ملیشیا اور بہت سے گروپوں کو ابھرنے اور پپنپنے کی تحریک دی۔
انہوں نے جہادتی تنظیم کے علاوہ بھی دینی خدمات میں مقام پایا، عراق کے شہر نجف میں‌دینی اور سیاسی علوم حاصل کیں اور یہیں سے ان کا کامیابی کا سفر شروع ہوا۔

حزب اللہ ملیشیا کے سربراہ حسن نصراللہ کا تعلق بیروت کے ایک غریب گھرانے سے تھا۔ 1960 میں ایک سبزی فروش کے گھر حسن نصراللہ پیدا ہوئے، حسن نصراللہ لبنان کے دارالحکومت کے جس علاقے میں پیدا ہوئے وہاں کئی نسلوں کے لوگ آباد تھے۔
اس علاقے میں فلسطینیوں کے علاوہ دروز کمیونٹی کے لوگ اور آرمینیائی نسل کے آرتھوڈوکس عیسائی بھی شامل تھے۔

حسن نصراللہ کی کنیت ابو ہادی ہے کیونکہ ان کے بڑے بیٹے کا نام ہادی تھا جو کہ 1997 میں اسرائیلی فوج سے مڈبھیڑ میں شہید ہوئے تھے۔
ان کی اہلیہی فاطمہ یاسین سے اُن کے پانچ بچے تھے، ہادی ان میں سب سے بڑے تھے، جب ان کی شہادت ہوئی تو وہ صرف اٹھارہ سال کے تھے۔ ان کے علاوہ حسن نصراللہ کے دیگر چار بچے حیات ہیں۔

حسن نصراللہ نے لبنان کی مزاحمتی تحریک امل ملیشیا سے بھی تربیت پائی جبکہ تین سال تک عراق میں دینی علوم سے بھِ فیض یاب ہوتے رہے۔ وہ حزب اللہ کے بانی سربراہ عباس الموسوی کے بہت نزدیک تھے۔
عباس الموسوی نے ان کی قائدانہ تربیت میں کلیدی کردار ادا کیا اور ایک وقت ایسا بھِی آیا کہ انہیں سربراہی ہی تفویض کر دی۔

حسن نصراللہ نے 1992 میں صرف 32 سال کی عمر میں حزب اللہ کی کمان سنبھالی۔ اسرائیل کے خلاف کئی معرکہ آرائیوں کے بدولت اُنہیں ہیرو کا درجہ ملا۔ انہوں نے کئی مواقع پر اسرائیل کے لیے انتہائی مشکلات پیدا کیں۔
2006 کی لبنان جنگ میں انہوں نے اسرائیلی فوج کو شمالی اسرائیل میں بہت پریشان کیا جس کے بعد اسرائیل کو فضائی دفاعی نظام آئرن ڈوم تیار کرنا پڑا۔

سید حسن نصراللہ شہید نے 2006 کے بعد سے روپوشی اختیار کر رکھی تھی۔ وہ منظرِعام پر آنے سے گریز کرتے تھے کیونکہ اسرائیلی خفیہ ادارے اور ان کے ایجنٹ ان کی تاک میں رہتے تھے۔
حسن نصراللہ کا آخری خطاب 19 ستمبر کو جنوبی لبنان میں پیجر دھماکوں کے حوالے سے تھا۔ اس موقع پر انہوں نے اسرائیلی فوج اور خفیہ اداروں کی طرف سے پیجر اور واکی ٹاکی دھماکوں کو اعلانِ جنگ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اب حزب اللہ کے ہر رکن اور کارکن کو بھرپور جنگ کی تیاری کرنی چاہیے۔

حسن نصراللہ کو ڈھائی تین عشروں کے دوران لبنان سمیت پوری مشرقِ وسطٰی میں اسرائیل کے خلاف جدوجہد اور مزاحمت کا سب سے بڑا استعارہ سمجھا جاتا رہا ہے۔
امل ملیشیا سے حزب اللہ تک کی حسن نصراللہ کی مثالی کامیابی کاسفر ایسا ہے کہ اس پر تاریخ کے اوراق بھی شاہد ہیں، یہ ان کی شخصیت ہی تھی کہ حماس، جہادِ اسلامی، حوثی ملیشیا اور بہت سے گروپوں کو ابھرنے اور پپنپنے کی تحریک دی۔
سید حسن نصراللہ شہید نے ابتدائی تعلیم لبنان میں حاصل کی، بعد میں عراق کے شہر نجف گئے اور وہاں سے اسلامی تعلیم حاصل کی۔

2006 میں حسن نصراللہ نے اسرائیلی فوج کے خلاف کامیاب لڑائی لڑی جس کے نتیجے میں وہ عالمگیر شہرت کے حامل ٹھہرے جبکہ دوسری طرف حسن نصراللہ ناموس رسالت کے معاملے پر دنیا بھر کے مسلمانوں کی آواز بن کر ابھرے۔

مزید پڑھیں:  7ارب ڈالرزکابیل آؤٹ پیکج:آئی ایم ایف کی کڑی شرائط سامنے آگئیں