عام آدمی کے احساسات

تعلیمی ادارے خواہ وہ نجی ہوں یا پھر سرکاری ‘ طلبہ پر توجہ اور ان سے کام کروانے کے حوالے سے یکساں ہیں والدین اگر خود توجہ نہ دیں تو امتحان پاس کرنا مشکل ہوجائے ایک والدہ نے اپنے بچوں کو درپیش مسائل سے آگاہی دی ہے کہ کس طرح بھاری فیسیں دینے کے باوجود ایک نجی سکول میں بچوں سے صرف کاپی پر کام تو کروایا جاتا ہے ڈائری بھی لکھی جاتی ہے کہ یہ کام کروایا گیا اور ہوم ورک بھی دی جاتی ہے عالم یہ ہے کہ بچے سے پوچھو تو کم ہی ان کو اس دن کا کوئی سبق آتا ہوتا ہے ہوم ورک ہو یا روزانہ کا کام والدین ہی کو کروانا ہوتا ہے سکول والے فیس تو باقاعدگی سے لیتے ہیں سو فیصد نہ سہی کم از کم جو کچھ وہ کلاس میں پڑھاتے ہیں اسے تو بچوں کو ازبر کرادیں والدین اگر بچوں سے کام نہ کروائیں تو بچے کورے ہی کورے رہ جائیں مجھے خاتون سے بڑی حد تک اتفاق تو تھا ہی کہ یہ میرا بھی مشاہدہ رہا ہے پھر بھی میں نے ان سے کہا کہ کچھ بچے مشکل ہوتے ہیں اور ضروری نہیں کہ ہر بچہ کلاس میں اچھے نمبر لیں مگر خاتون بڑی تیز نکلیں انہوں نے اپنے بیٹے کی دو تین سال کا رزلٹ شیئر کر دیا کہ ان کا بیٹا ہمیشہ سے کلاس میں اول آتا رہا ہے مگر اس میں سکول والوں کا کوئی کمال نہیں میں بیٹھ کر بچوں کو پڑھاتی ہوں میں بچوں کو وقت دے سکتی ہوں اور تھوڑی بہت پڑھی لکھی بھی ہوں جن بچوں کے والدین ان کو وقت نہیں دے پاتے یا پھر وہ بچوں کو پڑھانے کی قابلیت کے حامل نہیں ان کا کیا ہو گا؟ میرے پاس اس کا جواب نہیں سرکاری سکولوں کے اساتذہ کے پاس ایک جماعت میں سو سو بچے ہونے کا عذر ہوگا جوسکول فیس لیتے ہیں ان کی انتظامیہ جواب دے یا پھر حکومت لوگوں کو اس طرح دہوکہ دینے ولے اداروں بارے آنکھیں بند کئے کیوں رکھتی ہے سکولوں میں بعض اداروں کے سکول بھی ہیں جہاں صورتحال قدرے بہتر ہے شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ وہاں اساتذہ کو معقول تنخواہ ملتی ہے نجی سکولوں میں صورتحال برعکس ہے وہاں تو کم سے کم اجرت بھی نہیں ملتی اور فیسیں باقاعدگی سے بٹوری جاتی ہیں ایسے میں اساتذہ کی عدم دلچسپی کی بھی سمجھ آتی ہے معاملہ جو بھی ہو والدین اور طلبہ ہی متاثرہ فریق ہیں جو رقم اور وقت صرف کرکے بھی محروم رہتے ہیں کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ۔ حیات آباد سے ایک ویڈیو کلپ شیئر کی گئی ہے جس میں نشے کے عادی افراد یا پھر کباڑی لوگوں کے گھروں کے سامنے کے جنگلے موقع ملتے ہی اکھاڑ لے جاتے ہیں ٹریفک کے نشانات کے بورڈ ہوں یا پھر گھروں کی نشاندہی والے بورڈ کچھ بھی محفوظ نہیں ۔ میرے خیال میں اس مسئلے کی پہلے بھی کسی قریب کے کالم میں نشاندہی کی گئی تھی بار بار اس کا تذکرہ لوگوں کے اصرار پر کرنا پڑتا ہے اس قاری نے اس حوالے سے تجویز دی ہے کہ حیات آباد پولیس کی ناکامی کے پیش نظر سیف حیات آباد کے بند کردہ انتظام کو پھر سے شروع کیا جائے اسے بند بھی پولیس کے دبائو پر کیا گیا تھا سیف حیات آباد کی کارکردگی کسی سے پوشیدہ نہ تھی پی ڈی اے حکام کو پویس کی نہیں عوام کی سننی چاہئے پولیس گشت او رائیڈرز کی تعیناتی سے بھی بہتری آسکتی ہے مگر مشکل یہ ہے کہ پولیس کام نہیں کرتی اور پیدا گیری میں لگ جاتی ہے پولیس اگر اتنی بھی بے کار ہو جائے تو پھر اس کا فائدہ ہی کیا اسے یکسر ختم ہی کر دیا جائے ۔
علاوہ ازیں مساجد کے سامنے جس طرح سبزی منڈی لگتی ہے اس پر کچھ عرصہ تو پی ڈی اے
حکام نے سختی کی مگر اب پی ڈی اے کا عملہ نظر نہیں آتا تو دوبارہ سے سبزی منڈیاں لگنا شروع ہو گئی ہیں بات کرو تو بیروزگاری اور غربت کا حوالہ دیا جاتا ہے اس سے انکار نہیں کم از کم ان لوگوں کو مارکیٹ کے ارد گرد اور مساجد کے سامنے سے تو ہٹا دیا جائے اور کسی قریبی کھلی جگہ کھڑے ہونے کی اجازت دی جائے تاکہ عوام کو تکلیف نہ ہو بلکہ سہوت ملے اور یہ لوگ بھی متاثر نہ ہوں۔ ایک اور خاتون قاری نے لوگ کیا کہیں گے کے عنوان سے دلچسپ برقی پیغام بھیجا ہے ان کا کہنا ہے کہ ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اس بارے میں دین کیا کہتا ہے احکام کیا ہیں ہمارا مسئلہ یہ کیوں ہے کہ لوگ کیا کہیں گے نک کٹ جائے گی اس سوچ کے تحت جس قدر نمود و نمائش کو فروغ ملا ہے یہ ہماری زندگیوں کو مشکل بنانے کی ایک بڑی وجہ بن گئی ہے شادی بیاہ تو رسم و رسوم اور حیثیت سے بڑھ کر خرچ کرنے کا نام بن گیا ہے نکاح کے بابرکت عمل کی تو ان رسوم کے سامنے کوئی اہمیت ہی نہیں رہی ساری توجہ رسوم و رواج اور نمائش و اسراف پردی جاتی ہے دین سے دوری نے معاشرے کو کہیں کا نہیں چھوڑارسوم و رواج کو اپنائے جا رہے ہیں جن کے پاس فضول کا پیسہ اور حرام کی دولت ہے ان کی تو سمجھ آتی ہے کہ مال حرام بود جائے حرام رفت مگر جو لوگ خون پسینہ ایک کرکے کماتے ہیں وہ جب ادھار لے کر فضولیات کر رہے ہوتے ہیں تو خون کھول اٹھتا ہے نیکی برباد گناہ لازم ۔یہ صرف اس سوچ کا وبال ہے کہ لوگ کیا سوچیں گے لوگ اپنا کام کریں گے ۔سوات اور چترال میں سادہ طریقے سے شادی بیاہ رچانے کی جو مہم شروع ہو گئی ہے کیا شہر کا تعلیم یافتہ اور دیندار طبقہ اس کی پیروی نہیں کر سکتا۔
قارئین اپنے مسائل و مشکلات 03379750639 پر واٹس ایپ میسج ‘ وائس میسج اور ٹیکسٹ میسج کر سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  آٹھ شعروں کی غزل پر ٹیکس کاٹا جائے گا